PDA

View Full Version : Part-7



CaLmInG MeLoDy
06-05-2015, 11:45 AM
Pichle 6 parts main aap ne shehram aur uske baap ke ikhtilaafat daikhe, aur sania aur uski maan neelam ka aik doosre par aitbar, magar neelam ka sania ke hawaale se pareshan hona daikha, ab woh waqt aa gaya hai ke, shehram apne baap ke hawale se badgumaani ka jawab haasil kar sake, aur sania apni maan ki pareshani ka jawab haasil kar sake..

shehram ke hawaale se pichle us hisse ka akhri paragraph, jis ko dobara parh kar aap apne zehen main kahani ko repeat kar sakainge...shukria











ایک لمحے کے لئے شہرم اور شہیر نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکا ایک دوسرے کے چہرے کے خد و خال کا جائزہ لیا شہیر کو اپنے بیٹے میں اسکی ماں کی جھلک نظر آئی . شہرم کی آنکھیں ، پیشانی اور بال بلکل اسکی ماں کے جیسے تھے ، اور ہونٹ اور تھوڑی اپنے باپ یعنی شہیر کے جیسے تھے، شہیر ٹک دیکھتا رہا شہرم کے چہرے پر ، اور اپنے دل میں اپنے بیٹے کے لئے امڈتے محبت کے جذبات اس پر لٹانے کے لئے اسکی طرف بڑھا ، مگر شہرم نے خد کو سمبھالتے ہوۓ بستر سے قدم نیچےبڑھا
دیئے . اور اپنے اور اپنے باپ کے بیچ بستر کا فاصلہ بنا لیا .

شہیر نے اس رویے پر خود کو شہرم سے بہت دور پایا . اور اپنی بے اختیار محبت کو ضبط کر لیا . مگر دل میں بے رخی کے احساس کو اپنے رویوں کا جواب سمجھ کر شہرم سے مخاطب ہوا .

کیسے ہو ، میں جانتا ہوں، تم مجھ سے بہت ناراض ہو، اتنے ناراض کے پتا نہیں یہ ناراضگی کبھی ختم بھی ہوگی یا نہیں. مگر میں اب تمہیں اپنی آنکھوں سے دور نہیں رکھ سکتا.

کیوں کیا اب کوئی اور راستہ نہیں رہا آپ کے پاس ہم سے بغاوت کا ؟ شہرم نے اپنے منہ ہی منہ میں جملہ بولا .

کیا کہا شہیر نے سوال پوچھا.

شہرم نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا .

Ab aage....




http://3.bp.blogspot.com/_i8RtM5Z5nTk/TNkNfJLvbhI/AAAAAAAAEnk/kpxbj0aszwQ/s1600/and-i-hate-you-so-43234.jpg



تم مجھے معاف کر دو میری جان . میں صرف تمہارا نہیں ، بلکہ ہر اس انسان کا گنہگار ہوں کہ جو میری زندگی میں شامل رہا، میں کسی کو اسکا حق نہیں دے سکا.

شہرم کے دل میں اس جملے نے بہت سے سوال پیدا کر دیئے . اب وہ اپنے باپ کی چاہت کے لئے نہیں بلکہ اپنے سوالوں کے جوابات کے لئے شہیر کی تمام بات سننا چاہتا تھا. شہرم اٹھ کر کمرے سے جانے لگا.

رکو بیٹا . کیا تم اپنے باپ کو اسکے بیٹے کی عدالت میں کچھ کہنے کی گنجائش بھی نہیں دو گے . کیا میں یونہی ساری عمر بے مراد پھرتا رہونگا ؟

اتنی جلدی کیا ہے آپ کو ؟ مجھے نہیں لگتا میں آپ کو ساری زندگی معاف کر پاؤں گا . مجھے آپ سے کسی قسم کی محبت کا تبادلہ نہیں کرنا، نا ہی مجھے آپ کی یہاں موجودگی میں کوئی دلچسپی ہے، ہاں اگر کوئی دلچسپی ہے مجھے ،تو بس اتنی کہ میں بھی اپنے کچھ سوالات کا جواب چاہتا ہوں. کچھ ایسی باتیں جاننا چاہتا ہوں کہ جن کی وجہ سے بچپن سے آج تک میرے دل میں سکون نہیں .

میں جانتا ہوں میری جان، تم نے کتنی تکلیف میں گزارا کیا ہے ، میرے بیٹے میں تیرے ایک ایک دکھ سے واقف ہوں.

شہرم نے اپنے باپ کی بات سن کر گردن جھٹکتے ہوئے کہا، میں نا جانے یہ بات آپ کو کیوں بتا رہا ہوں، اس انسان کو کیوں بتا رہا ہوں یہ باتیں کہ جس کو آج تک یہ خبر نہیں تھی کے اس کا بیٹا زندہ ہے یا مر گیا .

دروازے پر ہلکی جنبش ہوئی ، شہرم نے بڑھ کر دروازہ پورا کھول دیا . آیئے دادی جان . آپ کا بیٹا آپ کا انتظار کر رہا ہے.

زہرا بیگم ہاتھ میں چائے کی پیالی لئے کمرے میں بڑھیں .
آیئے امی . بیٹھیئے ..شہیر نے بات کو یہیں روکتے ہوۓ چائے کی پیالی اپنے ہاتھ میں لے کر خاموشی اختیار کر لی.
تم ناشتے کے لئے تیار ہو شہرم ؟ دادی نے مخاطب ہوتے ہوۓ کہا .

جی دادی ، آپ ناشتہ لگوایئے ، میں تیار ہو کر آتا ہوں، یونیورسٹی جانا ہے مجھے دیر ہو رہی ہے
.
میں تم سے شرمندہ ہوں شہیر ..زہرا بیگم اپنے بیٹے شہیر سے مخاطب ہوئیں .
میں نے تمہیں ایسے درد دیئے ہیں کہ جن کی کوئی دوا نہیں ہے . میرے پاس تو الفاظ بھی نہیں ہیں، کہ جن سے میں اپنے کیے پر شرمندگی کا اظہار کر سکوں، اپنی
غلطی کو سدھار سکون ، تمہیں تمھاری زندگی کا سکھ چین واپس کر سکون . میں بہت شرمندہ ہوں




امی ، میں بہت مشکل سے خود کو سمجھا کر آیا ہوں. اب یہ باتیں دوبارہ یاد کر کے پھر سے تکلیف میں مبتلاء نہیں ہونا چاہتا . بس ختم کرتے ہیں زندگی کی وہ تلخیاں جو ہمیں شرمندہ کرتی ہیں، جو ہمیں رشتوں سے دور کرتی ہیں، وہ شرمندگی بھی اب ہمارے کس کام کی ، جب وقت ہاتھ سے جا چکا ، تو اب شرمندہ ہونے میں کیا رکھا ہے. اب تو وقت ہے رشتوں کو سمیٹنے کا . اپنوں کو قریب لانے کا .

مجھے بتاؤ میرے لال ، میں تمہارے لئے کیا کروں .
کچھ نہیں امی . آپ بس میرے لئے دعا کریں . والدین کی دعا اولاد کی تقدیر بدل سکتی ہے . مجھے اب آپ لوگوں کا ساتھ اور دعا چاہئے .