PDA

View Full Version : Part-5



CaLmInG MeLoDy
06-05-2015, 11:41 AM
pichle parts main aap ne daikha ke aik bete ka us ke baap ke sath ikhtilaaf daikha, aur us ikhtilaaf par dada dadi ki pareshani daikhi, 3rd part main aap ki mulaqat is novel ke new characters sania and uski mother se hui
4rth part main sania ki mother ke liye akele is dunia main zindagi basar karne main kia problems hain wo daikhi abhi ye hissa jari hai..aaiye tab tak shaheer ka us ke bete shehram se milne ki beqaraari ko daikhte hain..






امی رات شہرم گھر نہیں آیا. کیا اسکا روز کا یہ ہی روٹین ہے؟
نہیں بیٹا. ایسا آج تک کبھی نہیں ہوا کے شہرم گھر نا آیا ہو. وہ سو رہا ہوگا اپنے کمرے میں.
پر امی میں صبح فجر کے بعد اسکے کمرے میں گیا تھا. وہ نہیں تھا اپنے کمرے میں. بلکہ بستر کی چادر پر ایک سلوٹ بھی نہیں تھی جو اسکی موجودگی کا ثبوت دے. میں نے تو رات بڑی بے تابی اور صبح کے انتظار میں گزاری ہے.
وہ سٹڈی روم میں سو گیا ہوگا. یہ اسکا معمول ہے. جب پیپرز قریب ہوتے ہیں ، وہ پڑھتے پڑھتے وہیں سو جاتا ہے.. بڑی پیاری طبیعت پائی ہے تمھارے بیٹے نے.

امی ایک کپ چائے اور ملے گی ؟
کیوں نہیں میری جان. ابھی لاتی ہوں.
امی آپ چائے سٹڈی روم میں لے آیئے گا. میں وہاں جا رہا ہوں. میری آنکھوں کا انتظار ، مجھے کہیں چین نہیں لینے دے رہا. بڑی مشکل سے میں نے اپنے دل کی بغاوت کو روکا ہے، بڑی مشکل سے میں نے خود کو سمجھایا ہے کہ میرا جو کوئی بھی ہے..وہ یہیں ہے.میرے والدین اور میرا بیٹا. جن کو میں نے برسوں خود سے جدا رکھا .

اچھا بیٹا تم چلو میں لاتی ہوں.

شہیر نے دروازے پر ہلکی دستک دی .
کون ہے آ جایئے . شہرم نے دستک کا جواب دیا . گہری نیند میں شہرم اس بات سے بلکل غافل تھا کہ دروازے پر کوئی اور نہیں بلکہ اس کا اپنا باپ ہے . اور اپنے بستر میں آنکھوں پر اپنی کلائی رکھے نیم دراز رہا .

شہرم نے اپنے بیٹے کو آواز دینے سے پہلے بستر پر نیم دراز لیٹے دیکھ کر اس کو اپنی نظروں میں سمونے کی کوشش کی. اور اپنی نگاہ کو شہرم کے سر سے پاؤں تک چہرے پر ہلکی اور محبت بھری مسکراہٹ کے ساتھ شہرم کی طرف مرکوز کر لیا . اور محبت سے بے اختیار ہو کر شہیر نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں شہرم کے بالوں پر پھیرنا شروع کر دی .

شہرم نے اپنی آنکھوں پر سے اپنی کلائی ہٹاتے ہوئے آنکھیں کھول کر دیکھا .

اوہ ........ ان الفاظ کے منہ سے نکلتے ساتھ ہی شہرم نے ایک دم خاموشی اور رویے میں بے
رخی اختیار کر لی . جس کو دیکھ کر شہیر اس بات کا اندازہ اچھی طرح لگا سکتا تھا کہ شہرم اس سے کتنا بد زن ہے .


ایک لمحے کے لئے شہرم اور شہیر نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکا ایک دوسرے کے چہرے کے خد و خال کا جائزہ لیا شہیر کو اپنے بیٹے میں اسکی ماں کی جھلک نظر آئی . شہرم کی آنکھیں ، پیشانی اور بال بلکل اسکی ماں کے جیسے تھے ، اور ہونٹ اور تھوڑی اپنے باپ یعنی شہیر کے جیسے تھے، شہیر ٹک دیکھتا رہا شہرم کے چہرے پر ، اور اپنے دل میں اپنے بیٹے کے لئے امڈتے محبت کے جذبات اس پر لٹانے کے لئے اسکی طرف بڑھا ، مگر شہرم نے خد کو سمبھالتے ہوۓ بستر سے قدم نیچےبڑھا دیئے . اور اپنے اور اپنے باپ کے بیچ بستر کا فاصلہ بنا لیا .

شہیر نے اس رویے پر خود کو شہرم سے بہت دور پایا . اور اپنی بے اختیار محبت کو ضبط کر لیا . مگر دل میں بے رخی کے احساس کو اپنے رویوں کا جواب سمجھ کر شہرم سے مخاطب ہوا .

کیسے ہو ، میں جانتا ہوں، تم مجھ سے بہت ناراض ہو، اتنے ناراض کے پتا نہیں یہ ناراضگی کبھی ختم بھی ہوگی یا نہیں. مگر میں اب تمہیں اپنی آنکھوں سے دور نہیں رکھ سکتا.

کیوں کیا اب کوئی اور راستہ نہیں رہا آپ کے پاس ہم سے بغاوت کا ؟ شہرم نے اپنے منہ ہی منہ میں جملہ بولا .

کیا کہا شہیر نے سوال پوچھا.

شہرم نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا .