PDA

View Full Version : Part-3



CaLmInG MeLoDy
06-05-2015, 11:34 AM
pichle 2 parts main aap ne shehram aur uske baap ke darmyaan talluqaat ki waja se pareshani ko parha..aur shehram ke dada daadi ki is baare main tashweesh daikhi aaieye ab kahaani ke mazeed kirdaaroun ki taraf barhte hain....






























ثانیہ نے اپنے چہرے کو آئینے میں تھوڑا اور غور سے دیکھا . پلکوں کو جھپکایا ، اپنے چہرے کے خد و خال پر نظر دوڑائی ، اور اپنے آپ میں شرما گئی .
اس کا مطلب ہے، لوگوں کا میرے چہرے پر پڑنا ، اس چہرے کا کمال ہے. پھر اپنی سوچ کو جھٹک دیا. یہ سوچ کر ، کہ اس نے خود کو آج کل کے ہونے والے تمام حالات سے محفوظ رکھنا ہے، نہ تو وہ خود کو آزاد خیال کر سکتی ہے، نہ ہی اس میں اتنی طاقت ہے کہ ، زمانے کا مقابلہ کر سکے. اور ہوش میں آنے سے پہلے سے ہی بدنام لڑکی اگر ان حالات کی طرف دھیان لگائے گی ، تو نہ جانے اب اسکے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا .

ثانیہ نے جلدی جلدی اپنا میک اوور ختم کیا .
سج دھج کر ثانیہ کا کوئی ثانی نہیں تھا.

ثانیہ……….. ثانیہ بیٹا تیار ہو تو جلدی آؤ ہمیں دیر ہو رہی ہے.

ثانیہ اور نیلم ایک چھوٹے سے مگر قدرے خوبصورت اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھیں، نیلم ایک سرکاری دفتر میں بی پی ایس 9 کی افسر تھی. زندگی دونوں ماں بیٹیوں نے صرف ایک دوسرے کے لئے ہی اور ایک دوسرے کے ساتھ ہی گزاری تھی. آج حسب معمول ثانیہ اور نیلم ایک آفیشل پارٹی میں جا رہی تھیں. نیلم نے اپنی بیٹی کی پرورش اس طرح کی تھی کے زمانے کے ہر ڈھب میں ڈھل جانا ثانیہ کے لئے بہت مشکل نہیں تھا. مگر خود کو بدلتے حالات کے ساتھ با عزت طریقے سے کیسے ڈھالنا ہے. یہ ثانیہ بخوبی جانتی تھی. نیلم جانتی تھی کہ اس کی اس زندگی کا آغاز جس ماحول میں ہوا تھا، وہاں اسکو اجنبی لوگوں میں خود کے لئے کیسے مقام بنانا ہے ، کہ اسکی بیٹی ثانیہ کے لئے وہ ابھی سے کوئی مستقبل تلاش کر سکے . ثانیہ کی شادی نہ بھی کر پائے وہ ان اجنبی ماحول کے لوگوں میں. پر کم از کم ثانیہ کو جاب ضرور مل جائے گی .

ماشااللہ ، نیلم یہ تمھاری بیٹی ثانیہ ہے نا. ؟
آج اس کو میں نے دو سال بعد دیکھا ہے، کافی نکھار آ گیا ہے اس کی شخصیت میں. کیا کرتی ہو ثانیہ بیٹی . مسز انور نے ثانیہ کی طرف بڑے پیار سے نظر ڈالتے ہوئے سوال کیا .
آنٹی میں ماسٹرز کر رہی ہوں .

اچھا بیٹی . ٹھیک ہے. مجھے امید ہے نیلم کی پرورش میں تم نے ضرور کچھ اچھا ہی کرنا ہے. میں نے ان دس سالوں میں نیلم کو اپنے لئے سٹرگل کرتے دیکھا ہے. اور مجھے امید ہے ، تم اپنی امی کو ضرور کچھ اچھا ہی دو گی .

جی آنٹی میرے یہ ہی ارادے ہیں، میں اب ماما کو زندگی میں ماضی سے نجات نا بھی دلا سکوں پر آنے والا خوشحال کل ضرور دونگی .
بہت بڑی اور گہری بات کی ہے تم نے ،مسز انور نے ثانیہ کے انداز میں پختگی پر اسکے چہرے کا بغور جائزہ لیا .
ثانیہ نے گردن جھکا لی.
مگر مسز انور ثانیہ کے مزاج کو بھانپ گیئں .

چھوڑیئے مسز انور. یہ تو بچی ہے. نا دانی میں ایسی باتیں کر رہی ہے. نیلم نے مسز انور کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ کر مسز انور کا دھیان بانٹنے کی کوشش کی.
مسز انور اور نیلم کا کافی پرانا ساتھ تھا. مسز انور نیلم کے باس کی بیگم ہونے کے علاوہ نیلم سے بھی اچھے تعلقات رکھتی تھیں.

چند اور لوگوں سے ملاقات اور رات کے کھانے کے بعد نیلم اور ثانیہ نے اپنے گھر کا رخ کیا .

یہ میس چند سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کا میس تھا . جہاں اکثر پارٹیز ہوا کرتی تھیں. جن میں بڑے بڑے سرکاری افسران اور ایئر فورس کے حضرات شمولیت اختیار کیا کرتے تھے.
اور ملنسار فیملیز ایک دوسرے کو بھی دعوت دیا کرتی تھیں .
---------------------------------

یار میری ماما نے ، بڑی تلخ زندگی گزاری ہے، میں انکی مرضی کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتی. اور کیوں چلوں جبکہ انہوں نے اپنی ساری زندگی میرے لئے وقف کر دی ہے.ثانیہ اپنی دوست مریم سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی.

پر میں نے تو کچھ اور سنا ہے ثانیہ ..
مریم یار چھوڑ اس بات کو. کوئی اور بات کرتے ہیں

ثانیہ میں جب بھی تجھ سے اس موضوع پر بات کرتی ہوں تو میری بات کو ٹال دیتی ہو.

کیا یار مریم . میں نے کتنی دفع تجھے بتایا ہے ، میں اپنے ماضی کو یاد کرنا نہیں چاہتی. اور ویسے بھی . ماضی کی تلخ حقیقتیں یاد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.

لیکن تو کب تک اپنی حقیقت کو تلخ ماضی کہ کر پردہ ڈالتی رہے گی. ابھی تو تیری زندگی کا آغاز ہے . میں تو تیری دوست ہوں، تجھ سے اس موضوع پر بات اسلئے کرتی ہوں کہ تجھے سمجھا سکون . بتا سکون کہ لوگوں کا سامنا اپنی تلخ حقیقتوں کے ساتھ کیسے کرتے ہیں.

چھوڑ یار . اس زمانے کی پرواہ کی ہی کب ہے میں نے ، میں تو اپنے آپ میں جیتی ہوں، میں نے اپنے آپ سے دل لگایا ہے، نا کہ زمانے سے. ویسے بھی . اس زمانے والوں نے مجھ سے سب کچھ چھینا ہے. آج تک دیا کچھ بھی نہیں ہے . پھر میں اس زمانے کی پرواہ کیسے کروں .

ویسے تو یہ بات بھی صحیح کہتی ہے کہ زمانے کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے. مگر میری بات یاد رکھ میری جان ، کہ زمانہ مڑ مڑ کر حادثات کو، زندگی کی تکلیفوں کو اور حقیقتوں کو ایک کمزور انسان کے لئے دوہراتا رہتا ہے، کمزور انسان اپنا ماضی خود بھول بھی جائے ، پر لوگ اسے تازہ کرتے رہتے ہیں. ان زخموں کی طرح کہ جن سے خون ہمیشہ رستہ رہتا ہے.

ہاں تو بلکل سچ کہ رہی ہے مریم ، تو بھی ان ہی لوگوں میں سے ہے نہ جو میرے زخم کریدتے رہتے ہیں.

نا .....نہیں ثانیہ . اگر میری نیت ایسی ہو تو الله مجھے کبھی معاف نہ کرے . میں نے تو آج تک کبھی تیرے لئے دل میں کوئی برائی نہیں رکھی. بس تیرے اس روکھے پن نے ، مجھے مجبور کر دیا کہ میں تجھ پر تیری سوچ پر کام کروں، تجھے بدلنے کی کوشش کروں. صرف اکیس برس کی عمر میں تجھ میں اتنی کڑواہٹ ہے، اتنی تلخی ہے.

ثانیہ نے اس بات پر ایک ٹھنڈی آہ بھری . چہرے پر شدید اکتاہٹ ہونے کے باوجود اوپری مسکراہٹ سجا لی . اور مریم سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی . نہیں یار. مجھے تیری نیت پر کبھی کوئی شک تھا، نہ ہی ہوگا. ایک تو ہی ہے جو مجھے بہت اچھے سے سمجھتی ہے، میرا مان رکھتی ہے، ورنہ ، ورنہ میرے اپنوں نے تو مجھے ٹھکرا دیا ہے. میرے اپنے مجھے قبول کرنے کو تیار نہیں. ایک تو نے ہی میرے دل من کی بات سنی ہے، میرا ساتھ دیا ہے. مجھے اس دنیا میں آج تک کبھی اکیلے نہیں ہونے دیا. میں تیرا قرض کبھی نہیں اتار سکتی .

ثانیہ کی اس بات پر مریم نے خاموش رہنا بہتر سمجھا ، کیوں کے مریم اچھے سے جانتی تھی کے ، ثانیہ ایسی باتیں تب ہی کرتی ہے ، جب شدید ذہنی کرب سے گزر رہی ہوتی ہے، اور ایسے میں ثانیہ کے ساتھ زور زبردستی ثانیہ کو کافی دن تک تنہا رہنے پر مجبور کر سکتی ہے .