PDA

View Full Version : اب پچھتاوہ ہی میرا مقدر ہے



CaLmInG MeLoDy
06-05-2015, 10:40 AM
میں تو پاگل ہوں پاگل ، مجھ جیسی کوئی پاگل شائید ہی تمہیں کوئی دوسری ملے. میں وہ کرتی ہوں جو تمہیں اچھا لگتا ہے. میں ویسی بن گئی ہوں جیسے تم ہو. بلکہ تم تو ہو ہی میرے جیسے . پاگل تم نہیں سمجھو گے میری محبت کو تمہیں تو بس آج کی دنیا کا پتہ ہے.صرف اتنا پتہ ہے کہ محبت کو حاصل کیسے کرنا ہے چاہے اس کے لئے تمہیں اپنے ماں باپ رشتے داروں اور گھر کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے . نیل بولتی ہی چلی گئی اور راہب پہ جیسے ان باتوں کا کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا تھا. راہب پر ایک بھوت سوار تھا نیل کو پا لینے کا.


سنو نیل تم ڈرتی ہوگی زمانے سے. تم ڈرتی ہوگی کے کل کیا ہوگا. مجھے کسی کا کوئی خوف نہیں. مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں تمہیں حاصل کر لوں. اور دنیا کی کوئی طاقت بھی مجھے روک نہیں سکتی. نیل راہب کے اس جملے کو نا پسند کرتے ہوئے چپ ہو گئی .


راہب پلیز بڑے بول نہ بولو . دنیا میں ایک طاقت ہے ایسی جو سب سے بڑی طاقت ہے؛. جس نے آج تمہیں اس قابل کیا کے تم یہ الفاظ بول سکو ، تو وہ تم سے یہ ساری قابلیت ایک جھٹکے میں چھین بھی سکتا ہے. راہب اس بات پہ تھوڑا نرم پڑا اور خاموش ہو گیا.


__________________________
امی مجھے نہیں پتا. میں کچھ نہیں جانتا .میں نیل کے بغیر نہیں رہ سکتا. اسکو پانے کے لئے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں . چاہے اس کے لئے مجھے آپ لوگوں کے گھر کو خیر بعد ہی کیوں نہ کہنا پڑے .
راہب کی امی بغیر پلکیں جھپکے صرف راہب کی طرف دیکھ رہی تھیں . اور راہب کے بدلتے رنگ اور تیور آج انکو یہ احساس دلا رہے تھے کہ
کسی لڑکی کے زندگی میں آ جانے سے اپنے جسم اور روح کا حصّہ کیسے رنگ بدلتا ہے. اور اس ماں تک کو چھوڑنے کو تیار ہو جاتا ہے جس نے اپنی ساری زندگی صرف اپنے بچوں کے لئے وقف کر دی ہوتی ہے. آج اپنے ہی بیٹے کے تیور بدلتے دیکھ کر اور اپنی محبت کو جھکتے دیکھ کر خون کے آنسو رو رہی تھی.


تم بھول رہے ہو بیٹا کل تمہارے لئے ہم نے جس طرح کے وقت دیکھے ہیں آج ایک لڑکی کی خاطر تم ہمیں یہ روپ دکھا رہے ہو.


امی یہ آپ بھی جانتی ہیں اور میں بھی اچھے سے جانتا ہوں کہ اگر اس دنیا میں میں آیا ہوں تو اپنی مرضی سے نہیں . اور اگر میں آپ کی اولاد ہوں تو مجھے پالنا ، بڑا کرنا آپ کا فرض تھا. اور دنیا کے سارے ماں باپ ایسا ہی کیا کرتے ہیں. آپ نے کون سی کوئی نئی بات کی ہے.


ریحانہ بیگم (راہب کی امی ) نے خاموشی سے سر جھکا لیا. اور آئندہ آنے والی زندگی کے لئے کچھ فیصلے کرنے لگیں.
_____________________________


کاش . کہ میں نے اس وقت اپنی ماں کی بے عزتی نہ کی ہوتی تو آج مجھے یہ وقت نہ دیکھنا پڑتا. پر اس سارے حال کا میں ہی زمہ دار ہوں میری ہی وجہ سے آج یہ نوبت آ پنچی ہے. ماں کے آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ کر راہب کا دل رو رہا تھا. مگر آج اسکی ماں اسکی کسی بھی بات کا جواب دینے قابل نہیں تھی. وو صرف ایک بے جان مورتی تھی. جو اپنی زندگی کے دن گن گن کے جی رہی تھی. اور ہسپتال کے بستر پہ نیم بیہوشی کے عالم میں آنکھوں سے صرف آنسو بہا رہی
راہب نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر چوما اور پھر روتے ہوئے ماں کی پیشانی کی طرف چومنے کے لئے بڑھا کے اپنی غلطیوں کا مداوا کر سکے .اور معافی مانگ سکے کہ اب میں ساری ناراضگیاں ختم کر کے آپ کے پاس واپس لوٹ آیا ہوں کبھی نہ جانے کے لئے، مگر دیر ہو چکی تھی. ریحانہ بی ایک آہ اور سسسک کے ساتھ اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کش ہو گئی. کبھی واپس نا آنے کے لئے. اور راہب صرف امی امی پکارتا رہ گیا. شادی کی ضد کرتے وقت تو راہب نے اپنی ماں سے اپنے ہر سوال کا جواب مانگ لیا تھا. مگر ماں کی موت کے وقت راہب کے پاس اپنی ماں کو اس سے دور ہونے کی وجہ بتانے کے لئے کوئی جواب نہیں تھا. کیوں کے صرف نیل سے شادی کے لئے راہب نے اپنے امی ابو کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہا تھا. مگر اب راہب کے پاس سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں تھا.
_____________________________
آج راہب کو نیل کی طرف دیکھنا بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا. کیوں کہ راہب کو یہ احساس ستا رہا تھا کے یہ ہی وہ انسان ہے کے جس کے لئے راہب نے سارے اپنوں کو ٹھکرا دیا تھا. راہب نیل کے روپ کے امرت میں ایسا کھویا کے اپنے دل کے زہر کو ماں باپ سے دوری کی شکل میں بڑھاتا گیا. میں ایک مسلمان ہو کر یہ بھول گیا کے میرا فرض کیا ہے. میں نیل کی زندگی میں رنگ بھرنے کے لئے اپنی ماں اور اپنے باپ کی زندگی کو بے رنگ کرتا گیا. نیل کی زندگی کو بہتر سے بہترین بنانے کے لئے اس ملک کو بھی خیر بعد کیا . میری ماں نے اپنے ارمانوں کا خون کر کے خود خون کے آنسو پی لیئے . اس کا بدلہ میں نے انکی جان لے کر دیا. انکو تنگی بیماری اور پریشانی کی حالات میں دیکھ کر بھی انکا ساتھ نہ دیا. جبکے میری ماں نے اور باپ نے اپنی ساری زندگی ہم پہ لٹا دی.
آج راہب کو اپنی ایک ایک حرکت یاد آ رہی تھی .نیل کے لئے راہب نے اپنی ماں کو روتے ہوئے ایک لمحے میں چھوڑ دیا تھا. اپنے باپ کے حکم کو ایک منٹ میں رد کر دیا تھا. اپنی زمہ داریوں کا ہی احساس راہب اپنی ماں کو ہمیشہ دلاتا رہا .اور اپنا فرض اپنے ماں باپ کے لئے بھول گیا. پر کتنے عظیم تھے میرے والدین کہ جنہوں نے مجھے اپنی تکلیف کا احساس تک نہیں ہونے دیا. بلکہ میری خوشیوں پہ خوش ہی ہوتے رہے. کتنا ظالم ہوں میں کے مجھے اپنے ماں باپ کی بیماریاں نظر نہیں آئیں. میں اس ہی انا میں رہا کے خود میرے ماں باپ مجھے بلا لینگے واپس. یہ بھول گیا کہ اب انکی عمر نہیں ہے میرے ناز نخرے اٹھانے کی .بلکہ اب میرا فرض بنتا ہے انکا خیال کرنے کا. میں تو ان کی محبت کا صلا مر کر بھی نہیں چکا سکتا. راہب کلمہ پڑھتا جا رہا تھا اور اپنی ماں کو کاندھا دیتا جا رہا تھا.
اب کہاں مجھے موقع ملے گا کہ میں اپنی ماں کی ابدی محبت کا احسان پورا کر سکوں. اب تو مجھے ان کو لحد میں اتارنا ہے. یہ رشتہ اور یہ محبت تو اب میرے ہاتھوں سے نکل گئی. یہ انمول رشتہ تو اب کہیں نہیں ملے گا مجھے. یہ بے لوث خدمات اور کون کرے گا میری جو میرے بچپن میں میری ماں نے کی. میں نے اپنی ماں کی شفقت اور محبت ، قربانیوں کے نتیجے میں اپنا سر اتنا اونچا محسوس کیا کہ انکی محبت مجھے چھوٹی لگنے لگی. اپنی بیوی کی محبت کے سامنے.میں نے اپنی ماں کو ساری زندگی کا انتظار دے دیا. اتنا انتظار جو مرتے دم تک اسکی آنکھوں سے آنسو کی شکل میں ٹپک رہا تھا. میں ہی مجرم ہوں. ہاں میں مجرم ہوں. مجھے بدحال دیکھ لوگوں نے مجھ سے میری ماں کی ڈولی بھی جدا کر دی. ہاں بظاھر ماں کا جنازہ اٹھاتا میں ماں کا ہمدرد نظر آ رہا ہوں. مگر میں اس قابل بھی نہیں ہوں کے میں انکو کاندھا دے سکوں.
_____________________________
راہب کب تک تم یوں خاموش رہو گے. آج آپ کی امی کی وفات کو پورا ایک ہفتہ گزر گیا ہے. مگر تمہاری خاموشی اب بھی ختم نہیں ہوئی. نیل تم نے بھی مجھے نہیں سمجھایا. تم نے بھی مجھے یہ احساس نہیں دلایا کہ ماں باپ کا رشتہ کسی رشتے سے بدلہ نہیں جا سکتا. نہ ہی اسکا کوئی بدل ہے. یہ محبت انمول ، دائمی ، اور بے لوث ہے. تم بھی تو ماں ہو ہمارے ایک بیٹے کی. کیا تم اپنے بیٹے کو خود سے جدا کرو گی. کبھی نہیں. جیسے میں نے اپنی ماں کی آنکھوں کا نور تمہاری آنکھوں کی چمک کی خاطر ان سے دور کر دیا ایسے تم سہہ لوگی اپنے بیٹے سے دوری. میری آنکھوں پہ تمہاری محبت کا پردہ پڑا تھا. پر تمہاری آنکھیں تو کھلی تھی. کیا میں لوٹا سکوں گا اپنی ماں کا پیار. کبھی نہیں نا.


نیل کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے. اپنی اس چھوٹی سی غلطی کا احساس کرتے ہوئے. ہاں جیسے میری ماں ہے. ویسے ہی راہب کی بھی ماں ہے. وہ میرے لئے صرف ساس رہی. کبھی ماں نہیں بن سکی میرے دل میں. راہب میں مانتی ہوں اپنی غلطی . مگر یہ فرض تمہارا تھا. تم اولاد ہو. تم کیسے بے بھول ہو گئے اپنے فرض سے. میں بھی تو تم سے جھگڑا کرتی ہوں اپنی ماں کی بیماری میں ان سے ملنے جانے کا. کبھی تم خوش ہوتے ہو. کبھی اجازت نہیں دیتے . یہ سوچ کر کہ اب انکی زمہ داری بیٹے پوری کریں گے. کیا میری شادی کے بعد میرا دل میرے ماں باپ کی محبت سے خالی ہو گیا. کیا میں پھر کھبی حاصل کر لونگی کہیں اور اپنی ماں جیسا پیار. انکے بعد میری یہ کمی کون پورا کرے گا. کوئی نہیں..تم بھی نہیں. کیوں ہر مرد کو صرف اپنے رشتے نظر آتے ہیں اور اپنی بیوی کے رشتے بھول جاتے ہیں.


آج راہب کے پاس پچھتانے کے علاوہ کچھ نہیں تھا. کیوں کے راہب نے اپنی ماں کو کھو دیا تھا. مگر اب راہب اپنی نیل کو موقع دینا چاہتا تھا اسکی ماں کی خدمات کا. تو راہب نے کھلے دل سے نیل کو اجازت دی کے جب تمہاری ماں کو تمہاری ضرورت ہو تم جاؤ نیل. میں نے بہت بری غلطی کی اپنی ماں کو چھوڑ کر . میں تم سے شادی کے بعد ان سے تعلّق رکھ سکتا تھا. کوئی اور بھی اگر میری طرح یہ غلطی کر رہا ہے اور اپنے ماں باپ سے ناراض ہے تو وہ رازی ہو جائے . میں چاہتا ہوں کے اب کوئی بیٹا یا بیٹی اپنے ماں باپ کو نا ٹھکرائے. یہ نہیں ملتے پھر دوبارہ. اور نا ایسی محبت کوئی اور کر سکتا ہے. ہم لاکھ ان سے ناراض ہوں ایک بار ان کے سامنے سر جھکا دیں تو یہ سینے سے لگا لیتے ہیں. ہمیں کوئی اور ٹھکرا دے تو یہ ہمیں اپنی پلکوں پہ بیٹھا لیتے ہیں. ہمارا کوئی بڑا نقصان ہو جائے تو یہ ہمارے نقصان کی تکلیف اپنی محبت سے کم کر دیتے ہیں. پتا نہیں کیا کشش ہے اس محبت میں. راہب نے اپنے بیٹے کو اپنے سینے سے لگایا یہ سوچ کر کہ کہیں کوئی مجھ سے چھین نا لے. ایسی ہوتی ہے یہ ابدی محبت.

Mamin Mirza
06-05-2015, 11:02 AM
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر


اتنی دُکھی تحاریر کیوں لکھتی ہو،آج ذرا اس راز سے پردہ اٹھا ہی دو۔
ہاں یہ ایک المیہ ہے ہمارے معاشرے کا۔ویسے بھی ہماراشماران لوگوں میں ہوتا ہے جو سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹتے ہیں۔انسانوں کی قدر ان کے دنیا چھوڑ جانے کے بعد کرتے ہیں۔زندہ لوگ تو فار گرانٹڈ ہیں ہمارے لئے۔
ایک بات بتاؤ۔۔۔یہ بےبھول کیا ہوتا ہے۔۔۔؟؟؟؟
بےدھیان،لاپرواہ یہ تو میں نے سنا ہے۔۔یہ بے بھول کیا ہوتا ہے۔۔۔؟؟؟؟
لکھتی رہو اور اردو صحیح لکھا کروبرائے مہربانی۔۔۔!

CaLmInG MeLoDy
06-05-2015, 12:16 PM
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر


اتنی دُکھی تحاریر کیوں لکھتی ہو،آج ذرا اس راز سے پردہ اٹھا ہی دو۔
ہاں یہ ایک المیہ ہے ہمارے معاشرے کا۔ویسے بھی ہماراشماران لوگوں میں ہوتا ہے جو سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹتے ہیں۔انسانوں کی قدر ان کے دنیا چھوڑ جانے کے بعد کرتے ہیں۔زندہ لوگ تو فار گرانٹڈ ہیں ہمارے لئے۔
ایک بات بتاؤ۔۔۔یہ بےبھول کیا ہوتا ہے۔۔۔؟؟؟؟
بےدھیان،لاپرواہ یہ تو میں نے سنا ہے۔۔یہ بے بھول کیا ہوتا ہے۔۔۔؟؟؟؟
لکھتی رہو اور اردو صحیح لکھا کروبرائے مہربانی۔۔۔!

haha.ye tehreer us zamaane ki hai.jab lihna nahi aata tha na..wo toh abhi bhi nahi aata.par tab main aghlaat ko ghaltiyaan kaha karti thi.aap ne hi bataya tha ke aghlaat kaha karte hain. :P

aap hain na....ap ne apni tahareer jari rakhi hoti toh main ne seekh hi lena tha.

Special.Girl
06-05-2015, 08:16 PM
Impressive post.

intelligent086
06-06-2015, 09:54 AM
میں تو پاگل ہوں پاگل ، مجھ جیسی کوئی پاگل شائید ہی تمہیں کوئی دوسری ملے. میں وہ کرتی ہوں جو تمہیں اچھا لگتا ہے. میں ویسی بن گئی ہوں جیسے تم ہو. بلکہ تم تو ہو ہی میرے جیسے . پاگل تم نہیں سمجھو گے میری محبت کو تمہیں تو بس آج کی دنیا کا پتہ ہے.صرف اتنا پتہ ہے کہ محبت کو حاصل کیسے کرنا ہے چاہے اس کے لئے تمہیں اپنے ماں باپ رشتے داروں اور گھر کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے . نیل بولتی ہی چلی گئی اور راہب پہ جیسے ان باتوں کا کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا تھا. راہب پر ایک بھوت سوار تھا نیل کو پا لینے کا.


سنو نیل تم ڈرتی ہوگی زمانے سے. تم ڈرتی ہوگی کے کل کیا ہوگا. مجھے کسی کا کوئی خوف نہیں. مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں تمہیں حاصل کر لوں. اور دنیا کی کوئی طاقت بھی مجھے روک نہیں سکتی. نیل راہب کے اس جملے کو نا پسند کرتے ہوئے چپ ہو گئی .


راہب پلیز بڑے بول نہ بولو . دنیا میں ایک طاقت ہے ایسی جو سب سے بڑی طاقت ہے؛. جس نے آج تمہیں اس قابل کیا کے تم یہ الفاظ بول سکو ، تو وہ تم سے یہ ساری قابلیت ایک جھٹکے میں چھین بھی سکتا ہے. راہب اس بات پہ تھوڑا نرم پڑا اور خاموش ہو گیا.


__________________________
امی مجھے نہیں پتا. میں کچھ نہیں جانتا .میں نیل کے بغیر نہیں رہ سکتا. اسکو پانے کے لئے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں . چاہے اس کے لئے مجھے آپ لوگوں کے گھر کو خیر بعد ہی کیوں نہ کہنا پڑے .
راہب کی امی بغیر پلکیں جھپکے صرف راہب کی طرف دیکھ رہی تھیں . اور راہب کے بدلتے رنگ اور تیور آج انکو یہ احساس دلا رہے تھے کہ
کسی لڑکی کے زندگی میں آ جانے سے اپنے جسم اور روح کا حصّہ کیسے رنگ بدلتا ہے. اور اس ماں تک کو چھوڑنے کو تیار ہو جاتا ہے جس نے اپنی ساری زندگی صرف اپنے بچوں کے لئے وقف کر دی ہوتی ہے. آج اپنے ہی بیٹے کے تیور بدلتے دیکھ کر اور اپنی محبت کو جھکتے دیکھ کر خون کے آنسو رو رہی تھی.


تم بھول رہے ہو بیٹا کل تمہارے لئے ہم نے جس طرح کے وقت دیکھے ہیں آج ایک لڑکی کی خاطر تم ہمیں یہ روپ دکھا رہے ہو.


امی یہ آپ بھی جانتی ہیں اور میں بھی اچھے سے جانتا ہوں کہ اگر اس دنیا میں میں آیا ہوں تو اپنی مرضی سے نہیں . اور اگر میں آپ کی اولاد ہوں تو مجھے پالنا ، بڑا کرنا آپ کا فرض تھا. اور دنیا کے سارے ماں باپ ایسا ہی کیا کرتے ہیں. آپ نے کون سی کوئی نئی بات کی ہے.


ریحانہ بیگم (راہب کی امی ) نے خاموشی سے سر جھکا لیا. اور آئندہ آنے والی زندگی کے لئے کچھ فیصلے کرنے لگیں.
_____________________________


کاش . کہ میں نے اس وقت اپنی ماں کی بے عزتی نہ کی ہوتی تو آج مجھے یہ وقت نہ دیکھنا پڑتا. پر اس سارے حال کا میں ہی زمہ دار ہوں میری ہی وجہ سے آج یہ نوبت آ پنچی ہے. ماں کے آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ کر راہب کا دل رو رہا تھا. مگر آج اسکی ماں اسکی کسی بھی بات کا جواب دینے قابل نہیں تھی. وو صرف ایک بے جان مورتی تھی. جو اپنی زندگی کے دن گن گن کے جی رہی تھی. اور ہسپتال کے بستر پہ نیم بیہوشی کے عالم میں آنکھوں سے صرف آنسو بہا رہی
راہب نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر چوما اور پھر روتے ہوئے ماں کی پیشانی کی طرف چومنے کے لئے بڑھا کے اپنی غلطیوں کا مداوا کر سکے .اور معافی مانگ سکے کہ اب میں ساری ناراضگیاں ختم کر کے آپ کے پاس واپس لوٹ آیا ہوں کبھی نہ جانے کے لئے، مگر دیر ہو چکی تھی. ریحانہ بی ایک آہ اور سسسک کے ساتھ اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کش ہو گئی. کبھی واپس نا آنے کے لئے. اور راہب صرف امی امی پکارتا رہ گیا. شادی کی ضد کرتے وقت تو راہب نے اپنی ماں سے اپنے ہر سوال کا جواب مانگ لیا تھا. مگر ماں کی موت کے وقت راہب کے پاس اپنی ماں کو اس سے دور ہونے کی وجہ بتانے کے لئے کوئی جواب نہیں تھا. کیوں کے صرف نیل سے شادی کے لئے راہب نے اپنے امی ابو کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہا تھا. مگر اب راہب کے پاس سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں تھا.
_____________________________
آج راہب کو نیل کی طرف دیکھنا بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا. کیوں کہ راہب کو یہ احساس ستا رہا تھا کے یہ ہی وہ انسان ہے کے جس کے لئے راہب نے سارے اپنوں کو ٹھکرا دیا تھا. راہب نیل کے روپ کے امرت میں ایسا کھویا کے اپنے دل کے زہر کو ماں باپ سے دوری کی شکل میں بڑھاتا گیا. میں ایک مسلمان ہو کر یہ بھول گیا کے میرا فرض کیا ہے. میں نیل کی زندگی میں رنگ بھرنے کے لئے اپنی ماں اور اپنے باپ کی زندگی کو بے رنگ کرتا گیا. نیل کی زندگی کو بہتر سے بہترین بنانے کے لئے اس ملک کو بھی خیر بعد کیا . میری ماں نے اپنے ارمانوں کا خون کر کے خود خون کے آنسو پی لیئے . اس کا بدلہ میں نے انکی جان لے کر دیا. انکو تنگی بیماری اور پریشانی کی حالات میں دیکھ کر بھی انکا ساتھ نہ دیا. جبکے میری ماں نے اور باپ نے اپنی ساری زندگی ہم پہ لٹا دی.
آج راہب کو اپنی ایک ایک حرکت یاد آ رہی تھی .نیل کے لئے راہب نے اپنی ماں کو روتے ہوئے ایک لمحے میں چھوڑ دیا تھا. اپنے باپ کے حکم کو ایک منٹ میں رد کر دیا تھا. اپنی زمہ داریوں کا ہی احساس راہب اپنی ماں کو ہمیشہ دلاتا رہا .اور اپنا فرض اپنے ماں باپ کے لئے بھول گیا. پر کتنے عظیم تھے میرے والدین کہ جنہوں نے مجھے اپنی تکلیف کا احساس تک نہیں ہونے دیا. بلکہ میری خوشیوں پہ خوش ہی ہوتے رہے. کتنا ظالم ہوں میں کے مجھے اپنے ماں باپ کی بیماریاں نظر نہیں آئیں. میں اس ہی انا میں رہا کے خود میرے ماں باپ مجھے بلا لینگے واپس. یہ بھول گیا کہ اب انکی عمر نہیں ہے میرے ناز نخرے اٹھانے کی .بلکہ اب میرا فرض بنتا ہے انکا خیال کرنے کا. میں تو ان کی محبت کا صلا مر کر بھی نہیں چکا سکتا. راہب کلمہ پڑھتا جا رہا تھا اور اپنی ماں کو کاندھا دیتا جا رہا تھا.
اب کہاں مجھے موقع ملے گا کہ میں اپنی ماں کی ابدی محبت کا احسان پورا کر سکوں. اب تو مجھے ان کو لحد میں اتارنا ہے. یہ رشتہ اور یہ محبت تو اب میرے ہاتھوں سے نکل گئی. یہ انمول رشتہ تو اب کہیں نہیں ملے گا مجھے. یہ بے لوث خدمات اور کون کرے گا میری جو میرے بچپن میں میری ماں نے کی. میں نے اپنی ماں کی شفقت اور محبت ، قربانیوں کے نتیجے میں اپنا سر اتنا اونچا محسوس کیا کہ انکی محبت مجھے چھوٹی لگنے لگی. اپنی بیوی کی محبت کے سامنے.میں نے اپنی ماں کو ساری زندگی کا انتظار دے دیا. اتنا انتظار جو مرتے دم تک اسکی آنکھوں سے آنسو کی شکل میں ٹپک رہا تھا. میں ہی مجرم ہوں. ہاں میں مجرم ہوں. مجھے بدحال دیکھ لوگوں نے مجھ سے میری ماں کی ڈولی بھی جدا کر دی. ہاں بظاھر ماں کا جنازہ اٹھاتا میں ماں کا ہمدرد نظر آ رہا ہوں. مگر میں اس قابل بھی نہیں ہوں کے میں انکو کاندھا دے سکوں.
_____________________________
راہب کب تک تم یوں خاموش رہو گے. آج آپ کی امی کی وفات کو پورا ایک ہفتہ گزر گیا ہے. مگر تمہاری خاموشی اب بھی ختم نہیں ہوئی. نیل تم نے بھی مجھے نہیں سمجھایا. تم نے بھی مجھے یہ احساس نہیں دلایا کہ ماں باپ کا رشتہ کسی رشتے سے بدلہ نہیں جا سکتا. نہ ہی اسکا کوئی بدل ہے. یہ محبت انمول ، دائمی ، اور بے لوث ہے. تم بھی تو ماں ہو ہمارے ایک بیٹے کی. کیا تم اپنے بیٹے کو خود سے جدا کرو گی. کبھی نہیں. جیسے میں نے اپنی ماں کی آنکھوں کا نور تمہاری آنکھوں کی چمک کی خاطر ان سے دور کر دیا ایسے تم سہہ لوگی اپنے بیٹے سے دوری. میری آنکھوں پہ تمہاری محبت کا پردہ پڑا تھا. پر تمہاری آنکھیں تو کھلی تھی. کیا میں لوٹا سکوں گا اپنی ماں کا پیار. کبھی نہیں نا.


نیل کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے. اپنی اس چھوٹی سی غلطی کا احساس کرتے ہوئے. ہاں جیسے میری ماں ہے. ویسے ہی راہب کی بھی ماں ہے. وہ میرے لئے صرف ساس رہی. کبھی ماں نہیں بن سکی میرے دل میں. راہب میں مانتی ہوں اپنی غلطی . مگر یہ فرض تمہارا تھا. تم اولاد ہو. تم کیسے بے بھول ہو گئے اپنے فرض سے. میں بھی تو تم سے جھگڑا کرتی ہوں اپنی ماں کی بیماری میں ان سے ملنے جانے کا. کبھی تم خوش ہوتے ہو. کبھی اجازت نہیں دیتے . یہ سوچ کر کہ اب انکی زمہ داری بیٹے پوری کریں گے. کیا میری شادی کے بعد میرا دل میرے ماں باپ کی محبت سے خالی ہو گیا. کیا میں پھر کھبی حاصل کر لونگی کہیں اور اپنی ماں جیسا پیار. انکے بعد میری یہ کمی کون پورا کرے گا. کوئی نہیں..تم بھی نہیں. کیوں ہر مرد کو صرف اپنے رشتے نظر آتے ہیں اور اپنی بیوی کے رشتے بھول جاتے ہیں.


آج راہب کے پاس پچھتانے کے علاوہ کچھ نہیں تھا. کیوں کے راہب نے اپنی ماں کو کھو دیا تھا. مگر اب راہب اپنی نیل کو موقع دینا چاہتا تھا اسکی ماں کی خدمات کا. تو راہب نے کھلے دل سے نیل کو اجازت دی کے جب تمہاری ماں کو تمہاری ضرورت ہو تم جاؤ نیل. میں نے بہت بری غلطی کی اپنی ماں کو چھوڑ کر . میں تم سے شادی کے بعد ان سے تعلّق رکھ سکتا تھا. کوئی اور بھی اگر میری طرح یہ غلطی کر رہا ہے اور اپنے ماں باپ سے ناراض ہے تو وہ رازی ہو جائے . میں چاہتا ہوں کے اب کوئی بیٹا یا بیٹی اپنے ماں باپ کو نا ٹھکرائے. یہ نہیں ملتے پھر دوبارہ. اور نا ایسی محبت کوئی اور کر سکتا ہے. ہم لاکھ ان سے ناراض ہوں ایک بار ان کے سامنے سر جھکا دیں تو یہ سینے سے لگا لیتے ہیں. ہمیں کوئی اور ٹھکرا دے تو یہ ہمیں اپنی پلکوں پہ بیٹھا لیتے ہیں. ہمارا کوئی بڑا نقصان ہو جائے تو یہ ہمارے نقصان کی تکلیف اپنی محبت سے کم کر دیتے ہیں. پتا نہیں کیا کشش ہے اس محبت میں. راہب نے اپنے بیٹے کو اپنے سینے سے لگایا یہ سوچ کر کہ کہیں کوئی مجھ سے چھین نا لے. ایسی ہوتی ہے یہ ابدی محبت.




































اس خوب صورت تحریر میں کچھ املاء کی غلطیاں تھیں ان کی تصیح کر دی ہے ۔۔۔۔۔bath:۔
خوب صورت شیئرنگ کا شکریہ

ayesha
06-08-2015, 02:40 PM
nice...

Daniel-7
06-09-2015, 03:41 PM
Bahot dukhi lag rahi hain is peyar bhare duniya me. Thanks for sharing!!!!

Special.Girl
06-10-2015, 01:02 PM
Very keen obsetvation on human behaviour with family members. Feelings and attitude. A very good writibg indeed. A lesson to new genration

Mamin Mirza
06-24-2015, 10:51 AM
haha.ye tehreer us zamaane ki hai.jab lihna nahi aata tha na..wo toh abhi bhi nahi aata.par tab main aghlaat ko ghaltiyaan kaha karti thi.aap ne hi bataya tha ke aghlaat kaha karte hain. :P

aap hain na....ap ne apni tahareer jari rakhi hoti toh main ne seekh hi lena tha.

ہااااااااااا
یعنی یہ الزام بھی میرے ہی سر ٹھہرا
محترمہ اگر مجھ سے سکھتیں تو جو کچھ آتا ہے وہ بھی بھول چکی ہوتیں

CaLmInG MeLoDy
06-25-2015, 08:40 AM
ہااااااااااا
یعنی یہ الزام بھی میرے ہی سر ٹھہرا
محترمہ اگر مجھ سے سکھتیں تو جو کچھ آتا ہے وہ بھی بھول چکی ہوتیں نسخ کون کہ آپ بھڑموجی :p

Mamin Mirza
06-30-2015, 10:16 AM
نسخ کون کہ آپ بھڑموجی :p


تشریح پلیز

CaLmInG MeLoDy
06-30-2015, 06:10 PM
نسخ کون کہ آپ بھڑموجی :p

matlab ye ke..chaahe kuch bhi ho jaaye..acha ho ya bura...meri jaanib se..uski zimmedaar aap :P

Mamin Mirza
07-04-2015, 04:43 PM
matlab ye ke..chaahe kuch bhi ho jaaye..acha ho ya bura...meri jaanib se..uski zimmedaar aap :P

chalo,
Hum pay ilzam tou aisay bhi hai
wesay bhi sahi
naam badnaam tou aisay bhi hai
wesay bhi sahiiiii...........hum pay ilzammmmmm ;;)

Special.Girl
07-12-2015, 02:09 AM
chalo,
Hum pay ilzam tou aisay bhi hai
wesay bhi sahi
naam badnaam tou aisay bhi hai
wesay bhi sahiiiii...........hum pay ilzammmmmm ;;)
Kuch chat pati si bandi lag rahi ap :)