PDA

View Full Version : گھڑی کاانوکھا سفر...! انسانوں کی قدیم ایجادا&#



intelligent086
05-06-2015, 08:55 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/12887_99040993.jpg





گھڑی کاانوکھا سفر...! انسانوں کی قدیم ایجادات میں سے ایک گھڑی بھی ہے

منور انصاری
انسانوں کی قدیم ایجادات میں سے ایک گھڑی بھی ہے۔ زمانہ قدیم میں لوگ چاند، سورج، ستاروں اور سیاروں کی مدد سے وقت کا صرف اندازہ لگایا کرتے تھے۔اس کے بعد انسان وقت کو مزید مختصر اکائیوںمیں جاننے کی کوششیں کرنے لگا تبھی’’گھڑی‘‘ جیسی ایجاد کی ابتداہوئی۔ابتدا میں ’’سن ڈائل‘‘،’’آور گلاس‘‘اور ’’واٹر کلاک‘‘جیسی گھڑیاں ایک ساتھ منظر عام پر آئیں۔یہ قدیم ترین گھڑیوں میں سے ہیں۔سن ڈائل یعنی سورج گھڑی سے سائے اور چکنی سطح پر بنے اعداد کی مدد سے صرف دن میں وقت معلوم کیا جاسکتا تھا،جبکہ واٹر کلاک (پانی گھڑی )اور آور گلاس(ریت گھڑی)بالکل اس ’’ٹائمر‘‘کی طرح تھیں جن سے کھیل کے مقابلوں میں وقت ناپا جاتا ہے۔ اس کے بعد یورپ میں ۱۳۰۰ء میں ایک بڑی جدت لائی گئی جسے (escapement) کا نام دیا گیا۔ اس نئی گھڑی میں پہلی بار مختلف پرزے استعمال کیے گئے،جیسے اسپرنگ ،پہیے،پنڈولم وغیرہ۔ گویا اسے میکانکی صلاحیتوں کی مدد سے تیار کیا گیا۔یہ گھڑی خاص طور پر ریل گاڑیوں کی وقت پر آمدو رفت یقینی بنانے کے لیے بنائی گئی۔پندرہویں اور سولہویں صدی میں گھڑیاں بنانے کا عمل تیزتر ہوا۔ پنڈولم کی مدد سے بنائی گئی بہت سی اقسام کی گھڑیاں منظر عام پر آنے لگیں ،مگر اب تک وہ عوام کی دسترس میں نہ تھیں۔برقی رو کی ایجاد سے قبل گھڑیاں میکانکی طرز پر بنتیں یا پھر ان میں چابی دی جاتی۔ برقی گھڑی کی ایجاد ۱۸۴۰ء میں ہوئی، مگر برقی روعام نہ ہونے کے باعث وہ چل نہ ہو سکی۔بیسویں صدی میں جب برقی رو نے عروج پایا تب الیکٹرونک گھڑیوں پر بہت تیزی سے ساتھ کام ہونے لگا۔ نت نئی گھڑیاں بنانے کی اس دوڑ میں مسلم انجینئراور سائنسدان الجزری نے بھی حصہ لیا۔ انھوںنے ایک انوکھی قسم کی گھڑی بنائی تھی۔ جب تک گھڑیاں عام نہیں ہوئیں، شکلوں میں گھڑیوں کو ریلوے اسٹیشن ،ہوٹلوں اور عمارتوں میں نصب کر دیا جاتا، جسے گھنٹہ گھر یا کلاک ٹاور کہتے ہیں۔کچھ گھنٹہ گھر کافی اونچائی پر تعمیر کیے گئے،جس سے علاقے کے لوگ اپنے گلی کوچوں اور چھتوں پر چڑھ کر با آسانی وقت دیکھ لیا کرتے۔ کلاک ٹاورز پر نصب گھڑیال کے ایک یا پھر چار رْخ ہوا کرتے۔ اسی طرح کے گھنٹے بیچ چوراہوں پر بھی لگائے گئے جن سے مسافر اور راہ گیر آتے جاتے وقت دیکھا کرتے۔آج کے دور میں بھی نہ صرف یہ کلاک ٹاورز یا ان کے نشانات باقی ہیں بلکہ کئی جگہ پر یہ بالکل صحیح سلامت اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ کئی علاقے تو صرف انھی ٹاوروں کی وجہ سے مشہور ہوئے جیسے حیدرآباد کی ٹاور مارکیٹ اور فیصل آباد کے آٹھ بازار۔فیصل آبادشہر کو برطانوی پرچم ’’یونین جیک‘‘کی طرز سر گنگارام نے ڈیزائن کیا۔ شہر کے بیچ میں ایک مینار تعمیر کر اس پر گھڑیال نصب کردیا گیا۔ اگر ہم گوگل کے سیٹیلائٹ نقشے سے فیصل آباد دیکھیں تو پورا شہر ہمیںبرطانوی پرچم جیسا نظر آئے گا۔فیصل آباد کا گھنٹہ گھر ۱۴ نومبر۱۹۰۵ء کو عوام کے لیے کھولا گیا۔شہر کے آٹھ بازاروں کے نام اسی سمت ،واقع شہروں اور قصبوں پر رکھے گئے۔ان بازاروں سے گزرنے والے لوگ آسانی سے ٹاور میں موجود گھڑی کی مدد سے وقت دیکھ لیتے۔ کلاک ٹاور کی اہمیت اب بھی برقرار ہے۔ ۲۰۱۲ء میں سعودی عرب میں ایک کلاک ٹاور تعمیر کیا گیا ،جو ابرج البیت یا مکہ رائل ہوٹل کلاک ٹاور کے نام سے جانا جاتاہے۔ میکانکی گھڑیوں کی ایجاد کے ساتھ ہی کلائی میں باندھنے والی گھڑی بھی کچھ عرصے بعد بازاروں میں عام فروخت ہونے لگی۔ ان وقتوں میں جو بھی اپنی کلائی پر گھڑی باندھ کر چلتا ،اسے بہت امیر سمجھا جاتا۔ جب گھڑی ہر ایک کی دسترس میں آچکی تو پھر امیر اور شوقین لوگوں کے لئے بہت ہی مہنگی گھڑیاں تیار کی گئیںجو ہر ایک کی پہنچ میں نہ تھی۔ ان مشہورگھڑیوں راڈو، رولیکس اورٹاٹا وغیرہ شامل ہیں۔اب پاکستان سمیت دیگر ممالک میں آہستہ آہستہ لوگوں میں گھڑیاں باندھنے کا شوق ختم ہوتا رہا ہے۔لوگ اب وقت دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ شوقیہ گھڑیاں باندھتے ہیں۔ اب یہ شوق زیادہ تر صرف لڑکیوں اور بچوں میں پایا جاتا ہے۔ لڑکیوں میں یہ شوق جنم لینے کی وجہ بریسلٹ گھڑیاں ہیںجو چاہے بند ہوں پھر بھی ہاتھ پر باندھنا پسند کرتی ہیں۔ بچوں میں آج کل سب سے مقبول ’’ڈھکن والی گھڑی ‘‘بین ٹین گھڑی‘‘ اور ’’کیلکولیٹر گھڑی‘‘ ہے۔ تھوڑے بہت نوجوان لڑکوں کی پسندیدہ ’’سپورٹس گھڑی ‘‘کے نام سے جانی جاتی ہے۔آج کل صرف عید اور شادی کے دنوں میں ہی گھڑیوں کی خریداری کرتے اور پہنتے نظر آتے ہیں۔ جیسے جیسے سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی کی ویسے ہی گھڑیوں میں بھی بڑی تبدیلی آئی۔وہ یہ کہ میکانکی کی جگہ ڈیجیٹل گھڑیوں نے لے لی جو اعداد کے ذریعے وقت بتاتی۔اینالاگ گھڑی کی سب سے بڑی خرابی یہی تھی کہ وہ سردی ،گرمی ،دھوپ ،پانی ،نمی کی وجہ سے پیچھے رہ جاتی۔ اس وجہ سے لوگوں کو اکثر اپنے ضروری کاموں میں دیر ہو جایا کرتی۔ڈیجیٹل گھڑی کی سب سے بڑی یہ خوبی ہے کہ وہ میکانکی پرزوں کے بجائے الیکٹرونک آلات جیسے انٹیگریٹدسرکٹ وغیرہ سے تیار کی جاتی اور بالکل ٹھیک وقت بتاتی،مگر یہ گھڑی بھی کلائی پر نہ ٹک سکی کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دوڑمیں دوسری ایجادات نے بہت تیزی سے ان گھڑیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔وقت دیکھنے کے لیے اب زیادہ تر لوگ دوسرے آلات مثلاًموبائل،کمپیوٹر یا ڈیجیٹل دیواری گھڑی کو ترجیح دیتے ہیں۔آ ج کل اگر دیوار پر کہیں لوگ اینا لوگ گھڑی دیکھیں تو یہی سوال پوچھتے ہیں ’’ کیا یہ گھڑی صحیح چل رہی ہے؟‘‘ایسا لگتا ہے کہ جیسے لوگوں کا اینا لوگ گھڑیوں پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ دور جدید میں لوگوں کی کثیر تعداد صرف موبائل پر وقت دیکھتی ہے۔چلتے پھرتے،بس،ریل ،سکول ، کالج یونیورسٹی ہر جگہ موبائل ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔گویا ایک عدد ڈیجیٹل گھڑی، کیلکولیٹر، کیلنڈر، ٹائمر،سٹاپ واچ،الارم بھی موبائل کی صورت ہماری جیب میں رہتا ہے۔زیادہ تر نوجوانوں اور طلبہ کو ان سب چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ گھڑی صرف پہننے اور وقت دیکھنے کی حد تک ہی موقوف نہیں بلکہ اس پر لطیفے،بچوں کی نظمیں ، کہانیاں، پہیلیاں، افسانچے، گانے بھی لکھے جاچکے۔ اور بے شمار فلمیں اور ڈرامے بھی بنے جو بچوں بڑوں میں مقبول ہوئے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ جہاں لوگوں کاشوق گھڑیوں کی طرف سے ہٹتا جا رہا ہے، وہیں سائنس داں گھڑی باندھنے کی روایات برقرار رکھنے کے لئے انھیں جدید تر بنانے میں کوشاںہیں۔ وہ آئے دن نت نئی گھڑیاںعوام میں متعارف کرواتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں ایک کمپنی نے ایسی اسمارٹ گھڑی متعارف کروائی جو خوشبو کا اسپرے کر کے وقت بتاتی ہے۔ اس کی شکل بھی دوسری روایتی گھڑیوں سے مختلف ہے۔اس میںپرفیوم کی چار بوتلیں نصب ہیں۔ وہ مختلف اوقات میں اسپرے کر کے بتاتی ہیں کہ دن کا کیا وقت ہو رہاہے۔ ایک اور گھڑی میں بھی ہندسے موجودنہیں،وہ موسیقی کے ذریعے وقت بتاتی ہے۔اسی طرح کی بے شمار انوکھی گھڑیاں آئے دن متعارف ہوتی رہتی ہیں۔ ٭…٭…٭

Miss You
05-06-2015, 09:55 AM
Shukriyaa