PDA

View Full Version : کچھ اداس لمحے!!!



intelligent086
04-24-2015, 02:25 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/12786_54336814.jpg

http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/12786_54336814.jpg

ڈاکٹر صاحب…!ڈاکٹر صاحب…!ابراہیم کی ہیڈ سٹاف بڑے گھبرائے ہوئے اندازمیں اندر داخل ہوئے تھی۔ سر ایک ایکسیڈنٹ کا کیس آیا ہے۔ حالت بہت ہی خراب ہے پلیز جلدی آئیے ابراہیم نے ہاتھ میں پکڑی فائل فوراً میز پر رکھی اور تیزی سے باہر کی جانب قدم اٹھائے۔خون کے گروپ کا ٹیسٹ کر لو اور خون کا بندوبست کرو یہاں Reserve میں نہ ہو تو ڈاکٹر نذیر کو فون کرو جنرل ہسپتال کے بلڈبینک میں۔ Three Surgries to deal with! left leg...head injury ...i guess two broken ribs !!! ڈاکٹر شہلا کو بلائیے فوراً۔ ابراہیم بہت قابل ڈاکٹر تھا۔ مریض کی حالت کیا ہے اور پہلی ضرورت میں کیا اقدام اٹھانا ضروری ہے وہ اس سے بخوبی واقف تھا اپنے باقی سٹاف کو ہدایات جاری کرتے ہوئے وہ تیزی سے آپریشن روم سے ملحق کمرے میں چلا گیا۔ایکسیڈنٹ میںکافی چوٹیں آئیں ہیں ان کو۔ میجر ٹراما۔ دو گھنٹے آپریشن روم میں مصروف گزار کر اب ابراہیم اس نوجوان کے متعلق رشتہ داروں سے بات کر رہے تھے۔ ’’اسٹیرنگ ویل کے دبائو کی وجہ سے اندر کچھ زیادہ ہی خون بہہ گیا ہے آپ دعا کیجیے۔‘‘ابراہیم خود بھی دل گرفتہ تھا زندگی اور موت بے شک اللہ کے ہاتھ میں ہے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں مگر اسے اپنے ہاتھوں میں کسی کا دم نکلتے دیکھنا یا کسی کو قطرہ قطرہ زندگی سے موت میں منتقل ہوتے دیکھنا بھی آسان نہیں ہوتا۔۔۔ یہ مشیتِ ایزدی ہے مگر بے حد کٹھن ہے۔۔۔ تکلیف دہ ہے اذیت ناک ہے۔۔۔ بہرحال ڈاکٹر ابراہیم کو اپنی ذاتی کیفیات سے باہر نکل کر سوچنا تھا۔ اس لڑکے کے لواحقین کو ان لفظوں میں بات کو بیان کرنا تھاکہ وہ سمجھ بھی جاتے اور امید بھی قائم رکھتے۔ایکسیڈنٹ بہت خطرناک تھا بہت شدید چوٹیں آئیں ہیں ان کو مگر ہم کوشش کر رہے ہیں۔ آپ اللہ سے اچھے کی امید رکھیے۔ یہ کہہ کر وہ اپنے آفس کی طرف بڑھ گیاکہ اب پیچھے دیکھنے والا منظر اسے ہمیشہ دکھ میں مبتلا کر دیتا تھا۔’’مے آئی کم ان‘‘ڈاکٹر ابراہیم کے دروازے پر دستک ہوئی تھی۔رویا رویا معصوم سا چہرہ لیے بِسمہ اندر داخل ہوئے۔آئیے تشریف رکھیے…! ڈاکٹر ابراہیم نے اچنبھے کی کیفیت میں اس سے کہا۔بسمہ خاموشی سے سامنے والے صوفے پر جا بیٹھی۔ ’’آپ کون…؟‘‘ ڈاکٹر ابراہیم فائل بند کرتے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھے اور قریب صوفے پر جابیٹھے۔ ’’میں زبیر کی بیوی ہوں…!‘‘ رونے کی وجہ سے بِسمہ کی آواز کا بھاری پن نمایاں ہو رہا تھا۔ کانونٹ میں پڑھی بسمہ کے لہجے سے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ پاکستان سے ہی تعلق رکھتی ہے یا کہیں باہر سے آئی ہے۔ ’’اوہ‘‘ ڈاکٹر ابراہیم بس اتنا ہی کہہ سکے تھے۔ کمرے کا ماحول انتہائی افسردہ ہو گیا تھا۔ (فوزیہ بھٹی کے ناول ’’ محرم‘‘ سے اقتباس

Miss You
04-24-2015, 04:06 AM
Nice

KhUsHi
04-24-2015, 06:08 AM
Great sharing

intelligent086
11-14-2015, 12:20 AM
http://www.mobopk.com/images/pasandkarnekabohatbo.png