PDA

View Full Version : فتح کی علامت! زم زمہ توپ



intelligent086
04-03-2015, 10:03 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/12650_22895381.jpg

رانا محمد شاہد
زم زمہ کے کئی معنی ہیں۔ آتش پرست آگ کی پرستش کرتے ہوئے یا نہاتے ہوئے آہستہ آہستہ جو الفاظ گنگناتے تھے، اسے بھی زمزمہ کہتے تھے۔ گانے کی اصطلاح میں ایک خاص آواز کے ساتھ گنگنانا بھی زم زمہ کہلاتا ہے۔ فارسی زبان میں شیر کی گرج کو بھی زمزمہ کہا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ فارسی زبان میں اس کے انھی معنوں کی مناسبت سے اس کا نام زمزمہ رکھا گیا ہو کہ جب یہ دوران جنگ دشمن پر گولہ باری کرتی تو شیر کی سی گرج جیسی آواز پیدا ہوتی۔زم زمہ توپ کی تیاری کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے: احمد شاہ ابدالی کے دور میں ان کے وزیر اعظم شاہ ولی خاں نے دو بڑے سائز کی توپیں بنانے کا حکم دیا جن کی تیاری کے لیے جزیہ کے طور پر لاہور کے رہائشی ہر ہندو گھرانے سے دھات کا ایک ایک برتن حاصل کیا گیا۔ یہ شاید اس لیے تھا کہ ہندو پیتل کے برتن زیادہ استعمال کرتے تھے،پھر تانبے اور پیتل کے آمیزے کو ملا کر 1757ء میں ایک ہی سائز کی دو بڑی توپیں تیار کی گئیں۔ تانبے اور پیتل کی بنی اسی توپ کو سب سے پہلے احمد شاہ ابدالی نے1761ء میں پانی پت کی مشہور لڑائی میں استعمال کیا۔ اس جنگ کے بعد احمد شاہ ابدالی کا بل جاتے ہوئے دوسری توپ کو اپنے ساتھ لے گیا اور زم زمہ توپ کو اپنے ساتھ نہ لے جا سکا کیونکہ وہ خاص قسم کی گاڑی تیار نہیں ہوئی تھی، جس پرلاد کر اسے لے جایا جانا تھا۔ چنانچہ اس توپ کو لاہور میں موجود اپنے گورنر خواجہ عبید کے سپرد کرگیا۔ احمد شاہ ابدالی جو دوسری توپ اپنے ساتھ لے گیا تھا، وہ بھی دریائے چناب کے راستے میں ہی کہیں گم ہو گئی تھی۔ زم زمہ توپ خواجہ عبید کے پاس ایک سال تک پڑی رہی۔1762ء میں ہری سنگھ بھنگی نے لاہور پر حملہ کر دیا۔ مغل گورنر خواجہ عبید نے اپنا اسلحہ خانہ لاہور سے دو میل کے فاصلے پر موجود موضع خواجہ سعید (موجود کوٹ خواجہ سعید) میں بنا رکھا تھا۔ بھنگی سنگھ نے محاصرہ کر کے اسلحہ خانہ پر قبضہ کر لیا۔ اس اسلحہ خانہ میںزم زمہ توپ بھی شامل تھی۔ ہری سنگھ بھنگی کی وجہ سے ہی اس توپ کا نام ’’بھنگیوں کی توپ‘‘ پڑا۔1764ء تک یہ توپ یونہی شاہ برج میں پڑی رہی، پھر جب مہنہ سنگھ اور گوجر سنگھ بھنگی نے لاہور پر قبضہ کر لیا تو یہ توپ بھی اپنی تحویل میں لے لی۔کچھ دن بعد ایک اور سردار حیرت سنگھ سکہ چاکیہ لاہور آیا، بھنگی سرداروں کو لاہور پر قبضے کی مبارک باد دی اور آخر میں مال غنیمت میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کر دیا کیونکہ لڑائی میں حیرت سنگھ نے بھنگی سرداروں کی مدد کی تھی۔ بھنگی سردار اس کے مطالبے پر ناخوش تھے۔ وہ اسے کچھ نہیں دینا چاہتے تھے۔ چناں چہ انھوں نے ایک ترکیب سوچی، انھوں نے اسے ٹالنے کی غرض سے کہا ’’وہ زم زمہ توپ لے جائے‘‘۔بھنگی سرداروں کا خیال تھا کہ اتنی وزنی توپ وہ کہاں لے جا سکے گا اور یوں وہ اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹ جائے گا، مگر وہ حیران رہ گئے جب حیرت سنگھ نے اپنے خادموں کو بلایا۔ ان کے ذریعے وہ پہلے توپ اپنے ڈیرے پرلے گئے۔ وہاں سے گوجرانوالہ میں واقع اپنے قلعے میں لے گئے۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ یہ توپ دو چٹھہ سردار احمد خاں اور پیر محمد خاں نے حیرت سنگھ سے چھین لی اور اپنے علاقے احمد نگر لے گئے۔اتنی بڑی توپ دیکھ کر اس کے حصول کے لیے ان میں تنازع پیدا ہو گیا۔ احمد خاں چاہتا تھا کہ توپ اس کی ملکیت میں رہے جب کہ پیر محمد کی خواہش تھی کہ وہ اس کا مالک ہو۔ جھگڑا اس قدر بڑھ گیا کہ اس لڑائی میں احمد خاں کے دو بیٹے اور پیر محمد کا ایک بیٹا مارا گیا۔ اْن کی لڑائی کو دیکھتے ہوئے گوجر سنگھ بھنگی، پیر محمد خاں کی مدد کو پہنچا۔چناں چہ ان دونوں نے لڑائی کے دوران احمد خاں کو تنگ گھاٹیوں کی طرف دھکیل دیا۔ ایک دن اورایک رات تک احمد خاں کو پانی حاصل کرنے نہ دیا گیا۔ جس کے بعد احمد خاں نے اپنی شکست تسلیم کر لی اور توپ سے دست بردار ہو گیا۔ پھر توپ گوجر سنگھ نے پیر محمد خاں کے حوالے کرنے کی بجائے اسے دھوکا دے کر اس پر قبضہ کر لیا اور اپنے صدر مقام گجرات لے گیا۔ یہ توپ دو سال تک گوجرسنگھ بھنگی کے پاس رہی۔ بھنگیوں اور سکر چاکیوں میں اکثر لڑائی ہوتی رہتی تھی۔ چٹھوں نے 1772ء میں یہ توپ حاصل کر لی اور رسول نگر (اس کا پرانا نام رام نگر تھا) لے گئے۔اگلے سال یعنی 1773ء میں سردار جہانہ سنگھ بھنگی نے ملتان سے واپس آتے ہوئے ایک بار پھر حملہ کیا اور گوجر سنگھ سے زم زمہ توپ چھین لی۔ وہ اسے امرتسر لے گیا۔ 1802ء تک یہ توپ بھنگیوں کے قلعے میں رہی۔ اسی سال رنجیت سنگھ نے بھنگیوں کو امرتسر سے چلتا کیا اور توپ اپنے قبضے میں لے لی۔ رنجیت سنگھ کے دور میں اس توپ کی اہمیت بہت بڑھ گئی۔ اسے ’’فتح‘‘ کی علامت یا جنگ میں برتری حاصل کرنے کا نسخہ سمجھ لیا گیا۔ رنجیت سنگھ نے اسے ڈسکہ، قصور، وزیر آباد، سوجان پور اور ملتان کی لڑائیوں میں خوب استعمال کیا،مگر 1818ء میں ملتان کے محاصرے کے موقع پر اسے کافی نقصان پہنچا، پھر یہ ٹھیک نہ ہو سکی اور اسے لاہور لا کر دلی دروازے کے باہر رکھ دیا گیا۔ زمزمہ 1870ء تک وہیں پڑی رہی۔ اسی سال لاہور میں ڈیوک آف ایڈن برگ کی آمد کے موقع پر اسے انار کلی بازار کے قریب رکھ دیا گیا۔ اس وقت سے یہ توپ وہیں پڑی ہے اور ہر آنے جانے والے کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتی ہے۔اس کی مزید تفصیل کچھ یوں ہے: بادشاہ کے دربار سے بڑے وزیر کو یہ حکم ملا کہ ہر ممکنہ ہنر بروئے کار لاتے ہوئے ایک ایسی توپ بنائی جائے، جو اژدھے کی طرح خوفناک اور پہاڑ کی طرح بڑی ہو۔خانہ زاد، سپہر سریر شاہ ولی خاں وزیر معاملات نے اس حکم کی تعمیل میں نہایت بہترین کاریگروں کو جمع کیا اور یہ کام مکمل کیا۔ لہٰذا یہ عجیب و غریب زم زمہ توپ تیار ہو گئی۔ اتنی تباہ کن کہ آسمان کے درودیوار کو ہلا دینے والی۔ آخر کار اس کو بادشاہ کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے منہ کے سوراخ کی چوڑائی ساڑھے 9انچ ہے جب کہ توپ کی لمبائی 14فٹ 4انچ ہے۔جب انگریز سکھوںکو شکست دے کر پنجاب پر قابض ہو گئے تو قریباً1250توپیں ان کے قبضے میں آئیں۔ ان میں سے 38پر فارسی کے اشعار کندہ تھے، انہی میں زمزمہ توپ بھی شامل تھی۔ انگریز عہد میں جب پرنس آف ویلز (ولی عہد شہزادہ) ہندوستان آیا تو زمزمہ کو عجائب خانہ کے باہر چبوترہ بنوا کر آرائش کے لیے نصب کر دیا گیا۔ بعدازاں 1977ء میں اس کو مال روڈ لاہور پر نمائش کے لیے نصب کر دیا گیا۔ لاہور کے عجائب گھر میں برطانوی عہد میں ایک انگریز ملازمت کرتا تھا جس کے بیٹے Kiplingنے اپنے ناول ’’KIM‘‘میں اس توپ کا تذکرہ کیا تھا۔ اس لیے اس کے نام سے زمزمہ توپ کو ’’ GUN s KIM‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ زم زمہ توپ کا دھانہ سنہری رنگ کا جب کہ باقی توپ پہ زیادہ تر کالا رنگ ہے۔ توپ کو دھکیلنے کے لیے دو بڑے سائز کے پہیوں کے علاوہ پچھلی طرف بھی ایک چھوٹا پہیہ لگایا گیا ہے۔ مختلف جنگوں کے دوران اس توپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ دھکیلنے کے لیے سیکڑوں فوجیوں کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی تھی۔ جب اس توپ سے گولہ داغا جاتا تو اس کی گرج دور تک سنائی دیتی۔شاید یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ جب یہ توپ مسلمانوں کے پاس تھی تو بہت سے سکھوں کی موت کا باعث بنی اور جب سکھوں کے ہاتھ آئی تو مسلمان بھی اس کا نشانہ بنے۔ آج یہ توپ لاہور کے مال روڈ پر ایک چبوترے پر موجود ہے، اس کے آس پاس فوارے لگے ہوئے ہیں۔ دن کے اوقات میں سیکڑوں کبوتر توپ کے اردگرد ہجوم کی صورت میں ’’غٹر غوں‘‘ کرتے نظر آتے ہیںجو زمزمہ توپ کے اردگرد کے ماحول کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ زم زمہ توپ… لاہور کے چند اہم نوادرات میں سے ایک ہے۔ اسے ایک تاریخی ورثے کی حیثیت حاصل ہے۔ زم زمہ توپ جسے ایک سو سال سے زیادہ عرصے سے لوگ بڑے تجسس اور اشتیاق سے دیکھتے نظر آتے ہیں۔ یہ نہ صرف ڈھائی سو بر س سے کئی جنگوں اور واقعات کی گواہ ہے بلکہ ہمارا ایک قومی ورثہ بھی ہے۔ آج بھی بچے جب اس توپ کے پاس سے گزرتے ہیں تو اپنے والدین یا بڑوں سے اس کے بارے میں ضرور سوال کرتے ہیں، جو اکثر بیچارے اس توپ کانام تو جانتے ہیں مگر اس کی تاریخ سے ناواقف ہوتے ہیں۔ ٭…٭…٭

Arosa Hya
04-03-2015, 06:33 PM
sahi

KhUsHi
04-18-2015, 03:33 AM
بہت اچھی شیئرنگ ہے
بہت بہت شکریہ