PDA

View Full Version : ایڈیسن :عظیم موجد کی داستانِ حیات(2)



intelligent086
04-01-2015, 09:47 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x12629_32175922.jpg.pagespeed.ic.H5bdKC_yKs .jpg



اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنی بیوی کا ہاتھ اپنے بھاری پنجے میں دبوچ لیا۔ ’’شاید میں کینیڈا کے مقابلہ میں امریکہ سے زیادہ قریب ہوں۔ کچھ بھی ہو میں کینیڈا میں زیادہ جمہوری حکومت قائم کرانے کے لیے اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہ رکھوں گا، خواہ اس کے لیے مجھے جنگ ہی کیوں نہ لڑنی پڑے۔ غور سے سن لو میں چاہتا ہوں کہ میرے چلے جانے کے بعد تم یہ سرائے اسی طرح چلاتی رہنا۔‘‘ آتش دان کی گرم روشنی میں سیموئل ایڈیسن بڑی سنجیدگی سے باتیں کرتا رہا۔ دیوار گیر کے گھڑیال نے گیارہ بجائے تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’لیمپ لے کر میرے ساتھ آئو۔ میں ولیم اور ٹینی کو الوداع کہنا چاہتا ہوں۔‘‘ مسز ایڈیسن مٹی کے تیل کا لیمپ اٹھا کر اس کی لَو کو اپنے ہاتھ سے بچاتی ہوئی اپنے شوہر کے پیچھے پیچھے بچوں کے سونے کے کمرے میں گئی۔ ایک بستر پر چھ سالہ ولیم محوِ خواب تھا۔ وہ کمبل اوڑھے بڑے آرام سے سو رہا تھا اور اس کے بھورے رنگ کے گھنگھریالے بال باہر نکلے ہوئے تھے۔لمبے تڑنگے باپ نے جھک کر بڑی نرمی سے اس کے بال چوم لیے۔ دوسرے بستر پر پانچ سالہ ٹینی سو رہی تھی۔ اس کا باپ جب اس پر جھکا تو بچی نے اپنے سر کو آہستہ سے جنبش دی جس سے اس کا چہرہ کھل گیا۔ سیموئل ایڈیسن نے بڑی محبت کے ساتھ اس کی آنکھوں کے گورے گورے پپوٹے چوم لیے اور دبے پائوں کمرے سے باہر نکل گیا۔ شوہر اپنا بھاری کوٹ اَور موٹے سمور کی ٹوپی پہننے میں مصروف تھا۔مسز ایڈیسن اپنے سونے کے کمرے میں گئی اور بستر کے نیچے سے ایک بندوق نکال لائی جو امریکہ سے خفیہ طور پر کینیڈا منگائی گئی تھی۔ سرائے کے صدر دروازے پر پہنچ کر مسز ایڈیسن نے بندوق اپنے شوہر کے ہاتھ میں دی، الوداع کہنے کے لیے اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا اور جب وہ چلا گیا تو اس نے دروازہ بند کرکے قفل لگا دیا۔ سیموئل رات کی تاریکی میں غائب ہو گیا۔ برف اس وقت بھی گر رہی تھی۔ سیموئل ایڈیسن کے ٹورانٹو پہنچنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ وہ راستے ہی میں تھا کہ کیپٹن ولیم میکنزی نے اپنے چند ساتھیوں کی مدد سے شہر پر قبضہ کرنے اور لیفٹیننٹ گورنر کو قید کرنے کی کوشش کی۔ لڑائی میں حملہ آوروں کو شکست ہوئی اور وہ بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ اس مقابلے کے بعد جو لوگ بچ رہے وہ سیموئل ایڈیسن سے ایک جنگل میں آ ملے۔ بعض مفروروں نے بتایا کہ میکنزی دریائے نیاگرا کے ایک جزیرے میں بھاگ گیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ان کا رہنما اپنی جان بچا کر امریکہ پہنچ گیا ہے اس لیے اب اسے کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔ یہ سب کو معلوم تھا کہ حکومت نے بڑی تیزی سے چار سو انگریزوں کا ایک باقاعدہ فوجی دستہ بھرتی کر لیا ہے، کینیڈا کے سوباشندوں کی رضاکار تنظیم قائم کر دی ہے اور اتنے ہی ریڈ انڈینوں کو سکائوٹنگ کی تربیت دی ہے۔ کرنل میک نیب کی کمان میں یہ فوجی برینٹفرڈتک پہلے ہی پہنچ چکے تھے اور ویانا کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایڈیسن کے ہارے ہوئے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا ’’فوراً گھر بھاگ جائو اور اس وقت تک چھپے رہو جب تک تمہارا پیچھا کرنے والے تھک ہار کر بیٹھ نہ جائیں یا ہم اپنی تنظیم کرکے ٹورانٹو پر قبضہ کرنے کی ایک اور کوشش نہ کریں۔‘‘ چنانچہ وہ بڑی تیزی سے اپنی بیوی کے پاس واپس ویانا کی سرائے میں پہنچ گیا۔ سیم نے اپنی بیوی نینسی سے کہا:’’میرا یہاں ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں ہے کیوں کہ اس سرائے کی ضرور تلاشی لی جائے گی۔ میں اپنے والد کے پاس جا رہا ہوں اور ان کے فارم میں چھپ جائوں گا، وہ خود یا میرے سوتیلے بھائی تمہیں میری خیریت کی اطلاع دیتے رہیں گے۔‘‘ سیم فوراً کیپٹن سیموئل ایڈیسن سینئرکے فارم کی طرف بھاگا جو ویانا کی بستی سے ایک میل دور تھا۔ کرنل میک نیب کی چھوٹی سی فوج پیش قدمی کرتی ہوئی ویانا میں داخل ہو گئی اور چند گھنٹوں میں ایڈیسن کی سرائے تک پہنچ گئی۔ فوجیوں نے سرائے کا کونا کونا چھان مارا۔ گول گول آنکھوں والا ولیم اور سہمی ہوئی ٹینی اپنی ماں کے سائے سے چمٹے ہوئے یہ تماشا دیکھتے رہے۔ فوجیوں کے پہنچنے کے بعد ہر طرف ایک کھلبلی سی مچ گئی تھی اور سرائے کا ایک نوکر نظریں بچا کر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ کیپٹن سیموئل ایڈیسن کے فارم کی طرف بھاگا تاکہ نوجوان سیم کو خبردار کر دے کہ فوج والے جلد ہی وہاں بھی پہنچ جائیں گے(جاری ہے) (جی- گلینوڈ-کلارک کی تصنیف ’’ایڈیسن:عظیم موجد کی داستانِ زندگی‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭

intelligent086
04-02-2015, 10:37 AM
ایڈیسن :عظیم موجد کی داستانِ حیات(3)

سیم سبزیوں کے گودام میں چھپا ہوا تھا یہ خبر سن کر وہ باہر نکل آیا۔ اس نے کیپٹن ایڈیسن سے کہا: ’’اب مجھے جنگل میں چھپ کر امریکہ پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جتنی دیر تک ممکن ہو فوجیوں کو یہیں روکے رہیے تاکہ میں زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کرکے ان کی دسترس سے نکل جائوں۔سپاہی شاید دادا کے گھر کی بھی تلاشی لیں گے۔ ان سے بھی کہہ دیجئے کہ جس طرح بھی ممکن ہو ان کو روک کر ان کا وقت ضائع کریں۔ میں ڈٹرائٹ کی طرف جائوں گا اور جب خط بھیجنے میں کوئی خطرہ نہ رہے گا تو اپنی خیریت کی اطلاع دوں گا۔‘‘ کوٹ کی جیبوں میں کھانے کی چیزوں کے بنڈل ٹھونس کر اور ایک شکاری رائفل لے کر نوجوان ایڈیسن تیزی سے جنگل میں گھس گیا اور جنوب میں سرحد کی طرف روانہ ہو گیا۔ کیپٹن ایڈیسن بھی اولڈٹوری جان کے گھر بھاگا تاکہ اس کو تمام واقعات کی اطلاع دے سکے۔ کیپٹن ایڈیسن کے فارم پر اس کی سوتیلی ماں مسز ایڈیسن نے تمام نوکروں کو حکم دیا کہ وہ روزانہ کی طرح اپنے اپنے کام میں لگ جائیں جیسے کوئی نئی بات ہوئی ہی نہیں ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کچھ دیر بعد مسز ایڈیسن نے بھاری قدموں اور فوجی احکام کی آواز سنی۔ وہ باہر برآمدے میں نکل آئی اور کرنل میک نیب کے سامنے کھڑی ہو کر اس کے سوالات سننے لگی۔ وہ بولی: ’’میرے شوہر کیپٹن ایڈیسن گھر میں نہیں ہیں اس وقت یہاں صرف میں، میرے بچے اور نوکر ہیں۔ مجھے تو معلوم نہیں کہ سیموئل ایڈیسن جونیئر کہاں ہے؟‘‘ کرنل نے کہا: ’’مجھے اس مکان کی تلاشی لینے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ مسز ایڈیسن غصہ میں اندر جاتے ہوئے بولی: ’’اگر میری بات کا یقین نہیں ہے تو آیئے گھر کی تلاشی لے لیجئے۔‘‘ کرنل میک نیب نے جس کا چہرہ غصہ سے بالکل سرخ ہو رہا تھا تلاشی لینے کا حکم دیا۔ فوجیوں نے مکان کو گھیر لیا اور اس کی تلاشی شروع کر دی مگر انہیں جس شخص کی تلاش تھی اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ مکان کے بعد فوجیوں نے ایک ایک مرغی خانے، کھلیان، اصطبل یہاں تک کہ سبزیوں کے اس گودام کو بھی چھان مارا جس سے کچھ ہی دیر قبل نوجوان سیم نکل کر بھاگا تھا۔ کافی دیر تک سر کھپانے کے بعد فوجی سڑک پر قطاریں بنا کر روانگی کی تیاری کرنے لگے تو مسز ایڈیسن چوروں کی طرح گھر سے باہر نکلی۔ وہ جانتی تھی کہ فوجیوں نے اسے دیکھ لیا ہے مگر اس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ سب کی نظریں بچا کر جا رہی ہے۔ وہ بچتی اور چھپتی ہوئی اصطبل سے مرغی خانے گئی اور وہاں سے اسی طرح سبزیوں کے گودام میں چلی گئی۔ وہ تاریک اور غیر آباد عمارت کے اندر چند منٹ گزارنے کے بعد باہر آ گئی۔ فوجی اسی کی طرف جا رہے تھے۔ وہ روانہ ہوئی، چند قدم تک چلتی رہی پھر اچانک گودام کی طرف واپس چلی گئی۔ اس نے دروازہ بند کر دیا اور اکڑ کر سامنے کھڑی ہو گئی۔ ایک سارجنٹ نے کہا: ’’معاف کیجئے خاتون! ہم اس گودام کی تلاشی لیں گے۔‘‘ ’’جناب آپ اس جگہ کی پہلے ہی تلاشی لے چکے ہیں۔‘‘ مسز ایڈیسن نے جواب دیا۔ ’’نہیں۔ ہم اس کی دوبارہ تلاشی لیں گے۔ مہربانی کرکے راستے سے ہٹ جایئے۔‘‘ اس نے زور سے کہا: ’’میں نہیں ہٹوں گی۔ تم ایک عورت سے زبردستی نہیں کر سکتے۔ دیکھوں تو تم کیسے تلاشی لیتے ہو؟‘‘ اور وہ دروازے پر جم کر کھڑی ہو گئی۔ سارجنٹ پہلے تو کچھ ہچکچایا پھر اس نے کرنل میک نیب کے پاس ایک سپاہی بھیج کر اسے بھی مسز ایڈیسن کی اس حرکت کی اطلاع دی۔ کرنل فوراً موقع پر پہنچ گیا اور مسز ایڈیسن سے درخواست کی کہ وہ دروازے سے ہٹ جائے مگر اس نے وہاں سے نہ قدم ہٹایا نہ زبان سے کچھ کہا اور اس وقت تک دروازے کے سامنے سے نہیں ہٹی جب تک کرنل میک نیب نے دو کڑیل جوانوں کو یہ حکم نہیں دے دیا کہ وہ اسے زبردستی راستے سے ہٹا دیں۔ اس نے حقارت سے اپنے ہونٹ بھینچ لیے اور ہٹ کر کھڑی ہو گئی۔ فوجیوں نے پھر گودام کا ایک ایک کونہ چھان مارا۔ جب وہ باہر آئے تو مسز ایڈیسن نے زور سے قہقہہ لگایا اس خیال سے کہ شاید وہ اب بھی اس جگہ تک نہیں پہنچ سکے جہاں سیموئل چھپا ہوا تھا۔ فوجیوں نے سبزی کے گودام کی دوبارہ تلاشی لی۔ کرنل میک نیب کو بالآخر یقین ہو گیا کہ مفرور ایڈیسن وہاں نہیں چھپا ہوا ہے اور وہ اپنے فوجیوں کو لے کر وہاں سے روانہ ہو چکا۔ اب مسز ایڈیسن نے دل کھول کر قہقہے لگائے۔ اس نے مفرور سیم کے لیے مزید پندرہ منٹ کی مہلت حاصل کر لی تھی۔ ایڈیسن کے فارم سے فوجی اولڈٹوری جان کے مکان پر گئے۔ اس ستاسی سالہ بزرگ نے بھی کسی نہ کسی طرح فوجیوں کا تھوڑا سا قیمتی وقت ضائع کر دیا۔ بالآخر کرنل میک نیب سمجھ گیا کہ سیم ایڈیسن ویانا سے بچ کر نکل گیا ہے اور وہ اپنے کسی عزیز کے فارم میں نہیں چھپا ہوا ہے۔ مگر اس وقت تک رات ہو چکی تھی۔ یہ سوچ کر کہ سیم ضرور سرحد کی طرف بھاگا ہوگا کرنل نے اپنے انڈین سکائوٹوں کو جنگل چھاننے کا حکم دیا اور اپنے فوجیوں کو لے کر خود بھی برف سے ڈھکی ہوئی سڑک پر روانہ ہو گیا___ اس شخص کی تلاش میں جو اُن سے بہت آگے نکل چکا تھا(جاری ہے) (جی- گلینوڈ-کلارک کی تصنیف ’’ایڈیسن:عظیم موجد کی داستانِ زندگی‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭

intelligent086
04-03-2015, 09:50 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x12647_59582833.jpg.pagespeed.ic.jgNWLHllZC .jpg

اس کے بعد سیم ایڈیسن نے اپنے دن رات جس طرح گزارے اسے وہ کبھی نہیں بھلا سکا۔ کئی برس بعد وہ اپنے بچوں کو بتایا کرتا تھا کہ اس نے اپنی جان بچانے کے لیے کس طرح برف اور جنگل میں ایک سو اسی میل کا فاصلہ طے کیا تھا اور اس کو دنوں گرم کھانا نصیب نہ ہوا اس لیے کہ وہ ڈرتا تھا کہ اگر اس نے آگ جلائی تو انڈینوں کی عقابی نظریں دھواں دیکھتے ہی یہ معلوم کر لیں گی کہ وہ اس وقت کہاں ہے؟دن میں وہ چند گھنٹے درختوں کے نیچے جن کی شاخیں جمی ہوئی برف سے بوجھل ہوتی تھیں سو لیا کرتا تھا کیوں کہ راستے کے اِکادُکاّ مکانوں میں رہنے والوں پر اسے بھروسہ نہ تھا۔ رات کو وہ گرتا پڑتا جنوب کی جانب چلتا رہتا___ بس جنوب کی جانب۔ لگاتار کئی دن اور رات تک وہ اسی طرح مصیبتیں جھیلتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ کبھی کبھی ریڈ انڈین اس کے قریب تک پہنچ گئے اور کئی بار وہ ان کے گھیرے میں بھی آ گیا مگر اس نے سرحد پار کر ہی لی اور زندہ و سلامت مشی گن پہنچ گیا۔ چند مہینے تک وہ ڈٹرائٹ میں ٹھہرا رہا۔ اسے امید تھی کہ میکنزی کے ساتھی دوبارہ اپنی تنظیم کرکے کینیڈا کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک اور کوشش کریں گے مگر باغیوں کو اتنی زبردست شکست ہوئی تھی کہ ان کی دوبارہ تنظیم ناممکن تھی۔ ایڈیسن نے اس بغاوت کے لیے بعض امریکنوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہا۔ وہ اپنے گھر ویانا واپس نہیں جا سکتا تھا کیوںکہ کینیڈا کی حکومت کیپٹن میکنزی کے تمام باغی ساتھیوں کو سیاسی مجرموں کی حیثیت سے جلا وطن کر کے ٹسمانیہ بھیجنے کا منصوبہ بنا رہی تھی۔ حکومت نے بغاوت کی سزا دینے کے لیے سیم پر بھی بہت بڑا جرمانہ کر دیا تھا جسے وصول کرنے کے لیے اس کی ویانا کی تمام جائیداد پہلے ہی ضبط کی جا چکی تھی، اس لیے امریکہ میں نیا گھر بسانے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ موقع ملتے ہی سیم نے خفیہ طور پر اپنے عزیزوں کو خط لکھ کر یہ اطلاع دے دی کہ وہ خیریت سے ہے۔ مشی گن میں مختلف مقامات پر کچھ دن تک رہنے کے بعد وہ ریاست اوہایو کے شہر میلان پہنچا۔ میلان دریائے ہیورون کے کنارے ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جوایری جھیل سے صرف چند میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ گائوں سے دریائے ہیورون کے اس حصّے تک ایک نہر بنی ہوئی تھی جس میں کشتیاں بھی چل سکتیں تھیں۔ میلان سے اس نہر کے ذریعہ کشتیوں پر گندم، سبزیاں، عمارتی لکڑی اور دوسری چیزیں ایری جھیل کی بندرگاہوں کو بھیجی جاتی ہیں۔ سیموئل ایڈیسن نے میلان میں آرہ کشی کا ایک کارخانہ قائم کر کے اس میں لکڑی کی کھپریلیں بنانا شروع کر دیں اور اس کے کاروبار نے خوب ترقی کر لی۔نہر کے قریب ہی ایک گلی میں سرخ اینٹوں کا ایک چھوٹا سا مکان تھا جس کی چھت لکڑی کی کھپریلوں کی تھی۔ اس کے آگے کوئی برآمدہ نہیں تھا۔ زمین سے لکڑی کے صدر دروازے تک پہنچنے کے لیے دو سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ دروازے کے اوپر والے حصّہ میں روشنی کے تین شیشے لگے ہوئے تھے اور اس کے دونوں طرف ایک ایک کھڑکی بھی تھی جودونوں بغلی کمروں کو روشن رکھتی تھیں۔ سیدھی ڈھلوان چھت میں باہر کو نکلی ہوئی کوئی کھڑکی نہیں تھی بلکہ بلند چوبی کھپریلوں کے نیچے سونے کے دو کمرے تھے جن میں روشنی کے لیے چھت کے تکونے سروں پر دو چھوٹی کھڑکیاں لگی ہوئی تھیں۔ مکان کی کرسی کے نیچے تہ خانے میں ایک چھوٹا سا باورچی خانہ اور ایک کھانے کا کمرہ تھا۔ سیموئل ایڈیسن نے یہ مکان اپنے رہنے کے لیے خرید لیا۔میلان میں جہاز کا ایک کپتان الوابریڈلے بھی رہا کرتا تھا۔ اس کی عمر پچیس سال تھی۔ اس کا جہاز ایری جھیل کے آرپار جایا کرتا تھا۔ پہلے کینیڈا کی بندرگاہوں پر پھر امریکی بندرگاہوں پر۔ سیموئل ایڈیسن نے اس نوجوان کپتان سے دوستی کر لی۔ بامروّت بریڈلے ایڈیسن کے پیغامات اس کی بیوی بچوں کو کینیڈا پہنچایا کرتا تھا اور وہاں سے ان کے جوابات لایا کرتا تھا۔ اس نے نینسی ایڈیسن کو یہ بھی بتایا کہ اس کے شوہر نے اسے میلان بلانے کے لیے کیا کیا انتظامات کیے ہیں؟1839ء کے موسم بہار میں آخر نینسی اپنے دونوں بچوں کے ساتھ میلان پہنچ گئی اور سرخ اینٹوں کے اس مکان میں رہنے لگی جس میں سیم ایڈیسن نے ان کے لیے تمام تیاریاں پہلے ہی کرلی تھیں۔ ایڈیسن اور اس کے بیوی بچوں کو امریکہ میں ایک نیا وطن مل گیا تھا۔ (جی- گلینوڈ-کلارک کی تصنیف ’’ایڈیسن:عظیم موجد کی داستانِ زندگی‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭

intelligent086
04-07-2015, 01:18 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x12669_49519343.jpg.pagespeed.ic.1C1oDEyDWB .jpg
فروری 1847ء کا ایک سرد دن تھا۔ سیم ایڈیسن اپنے گھر کی بیٹھک میں آہنی آتش دان میں جلتے ہوئے کوئلوں کے سامنے ٹہل رہا تھا۔ وہ کھڑکی کے قریب گیا اور نہر کی طرف دیکھنے لگا۔ جس دریا میں ہر وقت کشتیاں چلتی رہتی تھیں اس پر برف کی موٹی اور ہموارتہہ جمی ہوئی تھی اور ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کشتی کو کنارے سے لگانے کے آبی راستے پر بھی برف جم چکی تھی۔ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا۔ آہٹ سن کر سیم ایڈیسن پیچھے مڑ کر دیکھنے لگا۔ ایک ڈاکٹر مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا۔ ’’مبارک ہو جناب ! آپ ایک پیارے پیارے بچّہ کے باپ بن گئے ۔‘‘ ’’شکریہ ڈاکٹر صاحب ! نئے وطن میں ہمارا یہ پہلا بچّہ ہے۔ میں جا کر اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر کافی پی کر گلی میں چلا گیا جس کے کنارے کھردری اور دندانے دار پتیوں والے بے رونق درخت لگے ہوئے تھے۔ سیم اپنی بیوی کی خواب گاہ میں داخل ہوا جو مکان کی پہلی منزل پر تھی۔ اس کی بیوی اسے دیکھ کر مسکرانے لگی اور بہت آہستہ سے بولی:’’آ کر اپنا بیٹا دیکھ لو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کمبل کا سرا ہٹا دیا اور بچّے کا ننھا سا چہرہ نظر آنے لگا۔ ’’اس کی ناک ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایڈیسن خاندان کا بچّہ ہے۔‘‘ سیم نے کہا۔ ’’ہاں۔‘‘اس کی بیوی نے اس سے اتفاق رائے کرتے ہوئے کہا۔’’اس کی نیلگوں بھوری آنکھوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے مگر اس کے بال میری طرح بھورے نہیں ہیں۔ اس کا نام کیا رکھا جائے؟‘‘ ’’اس کے لیے دو ناموں کی ضرورت ہوگی۔ ایک تم سوچ لو دوسرا میں‘‘ نینسی ایڈیسن ایک لمحے تک سوچنے کے بعد بولی:’’ کیپٹن الوابریڈلے ہمارے سب سے اچھے دوست ہیں۔ جب ہم ایک دوسرے سے دور تھے تو وہی ہمارے خط لاتے لے جاتے تھے اور انہی کے جہاز پر میں بچّوں کو لے کر یہاں آئی تھی۔ میں اپنے منے کا نام کیپٹن بریڈلے کے نام پر الوا رکھوں گی۔‘‘ ’’یہ سن کر وہ بہت خوش ہوں گے۔‘‘ سیم بولا۔ ’’اس کا نام ٹامس بہت موزوں ہو گا۔ میرے خاندان میں جان اور سیموئل اتنے ہو چکے ہیں کہ میں ان ناموں سے اکتا گیا ہوں۔‘‘ ’’الوا ٹامس ایڈیسن‘‘نینسی نے آہستہ یہ نام دہرایا۔’’سیم ! اس کے نام کے پہلے حروف اے ۔ ٹی۔ای (A-T-E) ہوں گے۔ حروف کا یہ مجموعہ مجھے اچھا نہیں لگا۔ یہ نام ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ سیم نے قہقہہ لگایا ’’اچھا یوں سہی اس کی ترتیب بدل دو۔ ہم اس کا نام ٹامس الوا ایڈیسن رکھ دیں گے۔‘‘ بچّہ کی ماں نے کہا: ’’ہاں یہ نام زیادہ اچھا ہے۔ ہم اسے الوا کہہ کر پکاریں گے۔ خاندانی کتاب لائو اور اس میں بچّے کا نام اور پیدائش کی تاریخ لکھ دو۔‘‘ سیم بیٹھک سے کتاب لے آیا اور آخر کے سادے صفحات نکال کر اس نے ایک صفحہ پر جما کر لکھ دیا ’’ٹامس الوا ایڈیسن۔ پیدائش 11فروری 1847ء ۔‘‘ نو عمر الوا جسے پیار میں لوگوں نے ال کہنا شروع کر دیا تھا تیزی سے عمر کی منزلیں طے کرنے لگا۔ بچپن ہی سے اس میں تلاش اور تجسّس کا مادہ موجود تھا۔ جیسے ہی وہ چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا اس نے اپنے ارد گرد کی دنیا کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ جب وہ الفاظ کو ملا کر جملے بنانے لگا تو اس کی باتوں کا ہر دوسرا فقرہ ’’کیا‘‘ ’’کیوں‘‘ سے شروع ہوتا تھا۔ ال کی بڑی بہن ٹینی اس وقت سن بلوغ کو پہنچ گئی تھی اور اس کا ایک دوست اس سے ملاقات کے لیے قریب قریب ہر روز آیا کرتا تھا۔ اس کی وجہ سے وہ اپنے چھوٹے بھائی کے لیے زیادہ وقت نہیں نکال سکتی تھی۔ مسز ایڈیسن کا تمام وقت گھر کے انتطام اور دیکھ بھال میں صرف ہو جاتا تھا۔ خوش قسمتی سے میلان میں نینسی ایڈیسن کی تیرہ سالہ بھانجی بھی رہتی تھی اور اس کا نام بھی اپنی خالہ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اسی پر اپنے خالہ زاد بھائی ال کی دیکھ بھال کا زیادہ تر بوجھ پڑا۔ اسی کو ال کے کبھی نہ ختم ہونے والے ایسے سوالات کا جواب دینا پڑتا تھا۔ اس نے ایک باراسے غضب ناک چوزوں سے بچایا تھا جن کے بہت سے پر اس نے صرف یہ معلوم کرنے کے لیے نوچ لیے تھے کہ وہ کس طرح اپنی جگہ لگے رہتے ہیں اور اسی نے ایک مرتبہ چند سہمی ہوئی بطخوں کو ال کے پنجوں سے چھڑایا تھا جس نے ان کے ہتھیلی نما پیر غور سے دیکھنے کے لیے انہیں پکڑ رکھا تھا۔ (جی- گلینوڈ-کلارک کی تصنیف ’’ایڈیسن:عظیم موجد کی داستانِ زندگی‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭

intelligent086
04-07-2015, 10:02 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/12673_22047466.jpg

1850ء میں جب ال کی عمر چار سال کے لگ بھگ تھی، تو تین بندگاڑیاں میلان آئیں اور ایڈیسن کے گھر کے قریب ایک میدان میں کھڑی کر دی گئیں۔ ان میں چند آدمیوں کی تعداد کیلی فورنیا جارہی تھی۔ ال بھی اتنا کم عمر تھا کہ وہ سونے کی تلاش میں جوق در جوق جانے والوں کی اہمیت سے ناواقف تھا مگر ان مسافروں کی بڑی بڑی سفید گاڑیوں میں اس نے غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا۔ان مسافروں کی آپس کی بات چیت میں اس نے ’’راکی پہاڑ‘‘ ’’بھینسے‘‘ ’’انڈین‘‘ ’’مغرب کا سفر‘‘ اور ایسے بہت سے نئے الفاظ سنے جن میں ال کو ایک عجیب سا جادو بھرا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ال نے نئے الفاظ سے متعلق اپنے باپ پر الفاظ کی بوچھار کر دی۔ سیم ایڈیسن نے سوچا کہ اپنے چھوٹے لڑکے کو خاندان کے بعض واقعات بتانے کا یہ سب سے اچھا موقع ہے۔ اس نے حیرت زدہ بچے کو بتایا کہ اس کے باپ دادا کس طرح 1730ء میں ہالینڈ سے امریکہ آئے تھے اور ان کے خاندان کا پہلا آدمی نیوجرسی میں اورپنج پہاڑ کے دامن میں پیسیک دریا کے کنارے آباد ہوا تھا۔ ال کو دریائوں سے متعلق سب کچھ معلوم تھا کیوں کہ دریائے ہیورون اس مکان کے بالکل پیچھے بہتا تھا۔ ’’ابا ! پہاڑ کسے کہتے ہیں ؟‘‘ اس نے سوال کیا۔ یہ بتانے کے بعد کہ پہاڑ کیا ہوتا ہے سیم نے اسے امریکہ کی انقلابی جنگ کا حال بتایا جس میں ال کے پردادا جان ایڈیسن برطانیہ کے شاہ جارج سوم کے وفادار تھے اور جس کی سزا دینے کے لیے جارج واشنگٹن کے امریکی سپاہیوں نے انہیں نیوجرسی کے جیل میں قید کر دیا تھا۔ اس نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا: ’’بادشاہ کسے کہتے ہیں اور جیل کیا ہوتی ہے؟‘‘ سیم نے اس کا جواب سمجھانے کے بعد کہا: ’’تمہارے پر دادا، اولڈ ٹوری جان کے نام سے مشہور تھے۔ وہ چند سال تک نواسکوٹیا میں رہے۔ آخر کار کینیڈا کی حکومت نے انہیں اونٹاریو میں چھ سو ایکڑ زمین دے دی، جو اس شہر سے ایک ہزار میل سے زائد فاصلہ پر تھی جہاں وہ رہتے تھے۔ تمہارے دادا نے اپنا تمام سامان بیل گاڑیوں پر لادا اور بیوی بچوں کو لے کر مغرب کی جانب روانہ ہوگئے۔ وہ بیل گاڑیاں ایسی ہی تھیں جیسے بند گاڑیاں سڑک کے پار کھڑی ہوئی ہیں۔‘‘سیم ایڈیسن نے بیل گاڑیوں پر مغرب کی جانب سفر کے حالات بیان کیے پھر بتایا کہ کینیڈا میں انڈینوں کے مقابلے کے لیے کس طرح زندگی کو خطرے میں ڈالنا پڑتا تھا اور اولڈٹوری جان نے ایک ویرانے میں جا کر کس طرح اپنا گھر بسایا تھا؟ انہیں کینیڈا میں جنگل صاف کر کے اور ناموافق حالات کا مقابلہ کر کے اسی طرح ایک نئی زندگی شروع کرنا پڑی تھی جس طرح اوہایو میں امریکہ والوں نے کی تھی۔‘‘’’ابا۔ کیا آپ کبھی انڈینوں سے لڑے بھی ہیں؟‘‘بچے نے سوال کیا۔ سیم ایڈیسن نے جواب دیا: ’’کبھی ان سے مقابلہ کرنے کی نوبت تو نہیں آئی مگر ایک بار تقریباً دو سو میل تک وہ مجھے ڈھونڈتے اور میرا پیچھا ضرور کرتے رہے تھے۔‘‘ باپ نے بیٹے کو بتایا کہ اس نے کس طرح 1837ء میں کیپٹن میکنزی کی مشہور بغاوت میں حصّہ لیا تھا اور انڈینوں سے اپنی جان کیسے بچائی تھی؟ ’’یہی وجہ ہے بیٹے کہ اب ہم اوہایو میں رہتے ہیں۔ تمہارے پردادا اب بھی کینیڈا میں ہی رہتے ہیں۔ کبھی موقع ملا تو میں تمہیں ان سے ملاقات کے لیے چلوں گا۔‘‘ (جی- گلینوڈ-کلارک کی تصنیف ’’ایڈیسن:عظیم موجد کی داستانِ زندگی‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭

intelligent086
04-08-2015, 10:06 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x12686_68079427.jpg.pagespeed.ic.je8d7_6rrK .jpg



بالٓاخر 1852ء میں جب ال پانچ سال کا تھا سیم ایڈیسن نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ اپنے تمام سامان کے ساتھ ماں، باپ، ولیم، ٹینی اور ال نے نہر، دریائے ہیورون اور ایری جھیل کا سفر کیا۔ پھر وہ کیپٹن الوابریڈلے کے ایک جہاز پر سوار ہو گئے۔ نیک دل کیپٹن نے اپنے کم سن ہم نام کو جہاز کا بڑا سا پہیہ پکڑ کر اسے کینیڈا کے ساحل کی طرف چلانے کی اجازت دے دی۔ کینیڈا پہنچنے کے بعد وہ پورٹ برول میں جہاز سے اتر کر ایک گاڑی پر ویانا روانہ ہو گئے۔ کینیڈا میں ننھّا ال اپنے دادا کیپٹن سیموئل ایڈیسن سینئر سے ملا پھر وہ تمام لوگوں کے ساتھ ویانا سے دیہات گیا اور اپنے پردادا سے ملاقات کی۔ اولڈ ٹوری جان کی عمر اس وقت سو سال سے بھی زیادہ تھی۔ اس نے اپنے پڑ پوتے کو اپنی گود میں بٹھا کر اس کا چہرہ بڑے غور سے دیکھا۔ اس نے تصدیق کے لیے سر ہلاتے ہوئے کہا: ’’یہ لڑکا واقعی ایڈیسن خاندان ہی کا ہے۔‘‘بوڑھے جان نے نام کے پہلے دو حروف ادا کرنے کے لیے انہیں بہت زیادہ کھینچ دیا۔ یہ سن کر ال کے کان کھڑے ہو گئے۔ ’’آپ میرا نام اس طرح کیوں لیتے ہیں کہ اسے سن کر ہنسی آ جاتی ہے؟‘‘ اس نے سوال کیا۔ ’’ہم تو اپنے نام اسی طرح لیتے آئے ہیں۔‘‘بوڑھے نے جواب دیا۔ لڑکا عجیب الجھن میں مبتلا ہو گیا اور اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ اس نے سخت لہجے میں کہا:’’میں الوای ڈیسن نہیں بلکہ الوا ایڈیسن ہوں۔‘‘ یہ سن کر ہر شخص ہنس پڑا۔ ’’بیٹا میرے پاس آئو‘‘ اس کے باپ نے کہا اور اسے اپنی گود میں بٹھا کر اسے سمجھانے لگا‘‘ ہالینڈ میں ہمیں ای ڈیسن ہی کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ کینیڈا آنے کے بعد بھی تمہارے دادا اور پردادا نے پرانا تلفظ ترک نہیں کیا مگر ہم اور تم امریکی ہیںاور ہم نے امریکہ کے انداز کے مطابق اپنے آپ کو ایڈیسن کہنا سیکھ لیا ہے۔‘‘ ال نے اپنے سر کو زور سے ہلاتے ہوئے کہا: ’’میں تو امریکی ہوں اور اپنے آپ کو ٹامس الوا ایڈیسن ہی کہوں گا۔‘‘ باپ نے اس سے اتفاق رائے کرتے ہوئے کہا: ’’ہاں بیٹا ہم امریکی ہیں مگر ہمیں پرانی دنیا کے باپ دادا پر فخر ہے۔‘‘ سیم نے اپنے دادا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’دادا جان! کیا میں ال کو وہ تمام خاندانی نوادر دکھا سکتا ہوں جو ہالینڈ سے آئے تھے؟‘‘ ’’میں یہ تمام چیزیں اسے خود دکھائوں گا۔‘‘بڑے میاں نے جواب دیا۔ وہ کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور ال کا ہاتھ پکڑ کر اسے مکان کی سیر کرانے لگے۔ ال نے ہالینڈ کی بنی ہوئی تمباکو پینے والی پائپ کو خاص طور پر پسند کیا جو سفید مٹی کی بنی ہوئی تھی۔اس کے پردادا نے اسے شیرا رکھنے کا ایک گھڑا بھی دکھایا جسے ایک سو پچیس سال قبل اس کے آبائواجداد ہالینڈ سے لائے تھے۔ ال کی خاص تفریح اور تواضع کے لیے اس کے پردادا نے اس سے کہا کہ وہ روٹی کے ایک بڑے سے ٹکڑے پر اس گھڑے سے شیرا انڈیل لے۔ شیرا لگی ہوئی مکیّ کی روٹی کو دانتوں سے کاٹتا ہوا ال مکان کی اوپر کی منزل کی طرف لے گیا، جس کی چھت کھپریل کی تھی۔ بالائی کمرے میں اس نے پرانے صندوق اور بہت سی دوسری چیزیں بھی دیکھیں جو اس کے بزرگ ہالینڈ سے لائے تھے۔ ال پر کینیڈا کے اس سفر نے بہت گہرا اثر چھوڑا۔ وہ اپنے دادا اور پردادا سے اگرچہ بہت بچپن میں ملا تھا مگر وہ انہیں کبھی بھول نہیں سکا۔ ان کی طرح ٹامس الوا ایڈیسن نے بھی لمبی عمر پائی تھی۔ (جی- گلینوڈ-کلارک کی تصنیف ’’ایڈیسن:عظیم موجد کی داستانِ زندگی‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭ -

intelligent086
04-09-2015, 09:44 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x12696_49110628.jpg.pagespeed.ic.VhP9qUTuw4 .jpg

میلان واپس جا کر الوا کا ذوق تجسّس اس کے جسم سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھنے لگا۔ اس کے بزرگ اس کے سوالات کے جواب میں اسے جو باتیں سمجھاتے تھے انہیں وہ ہمیشہ قبول نہیں کرتا تھا۔ اکثر اوقات وہ ان سوالات کا جواب خود اپنے آپ سے دریافت کرتا اور اس کے لیے ثبوت بھی پیش کرتا تھا۔ ایک دن اس نے نرم نرم روئیں والے بہت سے چھوٹے چوزے دیکھے۔ اچانک اس کے دل میں خیال آیا کہ یہ ننھّے ننھّے چوزے کہاں سے آتے ہیں؟ اس کی متحمل مزاج نگران نین نے اسے بتایا کہ مرغیاں انڈے دیتی ہیں پھر وہ ان پر اس وقت تک بیٹھتی ہیں جب تک سفید خول سے چوزے نہیں نکل آتے۔ ذرا دیر بعد ال کو ہر شخص سے نظریں بچا کر گھر سے نکل جانے کا موقع مل گیا۔ وہ سیدھا مرغی خانے میں گیا اور اس نے انڈے جمع کرنے شروع کر دئیے۔ یہاں تک کہ اس کی ہیٹ اور جیبوں میں بالکل جگہ باقی نہیں رہی۔ پھر وہ دبے پائوں کھلیان میں پہنچ گیا۔ وہاں اس نے تازہ اور خوشبو دار گھاس کا ایک گھونسلا سا بنایا، انڈے بڑے سلیقے سے ایک دائرے میں رکھ دئیے اور ان پر بڑی احتیاط سے بیٹھ گیا۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر معلوم کرنا چاہتا تھا کہ چوزے انڈے ہی سے نکلتے ہیں یا نہیں۔ ایک گھنٹے بعد نین کو پتہ چلا کہ چھ سالہ ال غائب ہے۔ وہ اسے پکارتے پکارتے تھک گئی۔ اس نے مکان کا کونہ کونہ چھان مارا، آخر وہ کھلیان میں پہنچی تو اس نے دیکھا کہ ال خشک گھاس پر چپ چاپ بیٹھا ہوا ہے۔ ال نے بڑے فخر سے اعلان کیا’’ میں انڈوں کے چوزے بنا رہا ہوں۔‘‘ نین کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی:’’آدھے انڈے نہیں سیتے ! تم نے بلا وجہ اپنے کپڑے ستیاناس کر لیے ہیں۔‘‘نین نے بگڑ کر کہا۔ اس نے ال کا ہاتھ پکڑ کر اوپر گھسیٹ لیا۔ سوکھی ہوئی گھاس پر ٹوٹے انڈے پڑے چپ چپا رہے تھے۔ ال رونے لگا۔ ’’میں تمہیں تمہاری امّی کے پاس لے چلوں گی۔‘‘ نین نے اسے ڈانٹ کر کہا۔ ال اس لیے نہیں رویا تھا کہ اس کی پتلون خراب ہو گئی تھی، رونے کا سبب یہ تھا کہ اس کے تجربے کا نتیجہ اچھا نہ نکلا تھا۔ جب اس کی ماں کو معلوم ہوا کہ ال انڈوں پر کیوں بیٹھا تھا تو اس نے اسے سمجھایا کہ انڈوں سے چوزے نکالنے میں تین ہفتے لگتے ہیں اور ان نازک انڈوں پر صرف مرغی ہی اس طرح بیٹھ سکتی ہے کہ وہ ٹوٹنے نہ پائیں۔ چند دن بعد ال کی ماں اسے مرغی خانے میں لے گئی۔ اس نے مرغی کو اٹھا کر ال کو دکھایا کہ انڈے کس طرح کٹک رہے ہیں؟ ال نے اپنی آنکھوں سے ایک زرد اور نرم و نازک چوزے کو انڈہ توڑ کر باہر نکلتے بھی دیکھا۔ اسے یقین ہو گیا کہ چوزے انڈوں سے ہی نکلتے ہیں۔ اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ تجربوں سے باتوں کا جواب یقیناً مل جاتا ہے مگر شرط یہ کہ تجربے ٹھیک طرح کیے جائیں۔ ایک طرف کم عمر ال اپنے تجربوں میں مصروف تھا اور روز بروز بڑھتا اور زیادہ طاقتور ہوتا جا رہا تھا، دوسری جانب میلان کا چھوٹا سا شہر زیادہ چھوٹا ہوتا جا رہا تھا اور اس کی خوش حالی گھٹتی چلی جا رہی تھی۔ ال کی پیدائش کے بعدہی اوہایو کے شمالی سرے سے ایک ریلوے لائن نکال دی گئی تھی مگر وہ میلان کے اندر سے نہیں گزرتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو گندم اور عمارتی لکڑی میلان کے راستے ایری جھیل اور اس کی بندرگاہوں کو بھیجی جاتی تھی وہ میلان آنا بند ہو گئی۔ یہ چیزیں اب نہر کی بجائے ریل پر بھیجی جانے لگی تھیں اور ان کے ساتھ ہی شہر کی خوشحالی بھی ختم ہونے لگی تھی۔ مسٹر ایڈیسن کے کارخانے میں بننے والی لکڑی کی کھپریلوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی اس لیے انہوں نے کسی ایسی جگہ چلے جانے کا فیصلہ کیا جہاں ریلوے لائن کی موجودگی ان کی خوش حالی کی ضامن بن سکے۔ 1854ء میں جب ال سات سال کا تھا ایڈیسن کا خاندان (میلان) اوہایو سے پورٹ ہیورون (مشی گن) منتقل ہو گیا۔ (جی- گلینوڈ-کلارک کی تصنیف ’’ایڈیسن:عظیم موجد کی داستانِ زندگی‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭

intelligent086
04-10-2015, 09:03 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/12702_75132600.jpg

پورٹ ہیورون، ریاست مشیگن کا ایک چھوٹا سا شہر تھا جو ڈٹرائٹ سے تقریباً پچاس میل شمال مشرق میں واقع تھا۔ 1854ء میں بھی وہاں صاف ستھری اور سیدھی سڑکیں تھیں جن پر دونوں طرف درخت لگے ہوئے تھے۔ شہر سے ایک میل شمال میں جھیل ہیورون کا نیلا پانی دور تک پھیلا ہوا تھا۔ پورٹ ہیورون کے مشرق میں دریائے سینٹ کلیر بہتا تھا جس کے ایک طرف مشیگن کے جنگل اور دوسری طرف کینیڈا کے کھیت تھے۔ پورٹ ہیورون کے بالکل ساتھ ہی گریٹیوٹ کا پرانا فوجی قلعہ اور چھائونی کے سرے پر ایک سفید دو منزلہ مکان تھا جو لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ اس کی پہلی منزل پر صد ر دروازے سے عمارت کے پچھلے حصّے تک ایک بہت بڑا ہال تھا۔ دوسری منزل پر چھ کمرے تھے۔ مسٹر ایڈیسن نے یہ مکان اپنے رہنے کے لیے خرید لیا۔ انہوں نے خاص پورٹ ہیورون میں غلہ اور چارے کا کاروبار شروع کر دیا۔ قلعہ کے سامنے نئے مکان میں رہنے کے بعد جب انہیں کچھ اطمینان ہوا تو مسز ایڈیسن نے فیصلہ کیا کہ اب ال کو لکھنے پڑھنے میں لگا دینے کا وقت آگیا ہے۔ ایک دن مسٹر ایڈیسن بگھی میں بیٹھ کر سات سالہ ال کو قریب کے ایک سکول میں لے گئے جس میں صرف ایک کمرہ تھا۔ اس میں سات سے بیس سال تک کی عمر کے لڑکے پڑھتے تھے۔ اسی ایک کمرے میں آٹھ مختلف جماعتوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔ استاد صرف ایک تھا اس لیے وہ بہت زیادہ مصروف رہتا تھا۔ کام کی زیادتی نے اسے ایک حد تک چڑ چڑا بنا دیا تھا۔ کند ذہن لڑکے ہمیشہ اگلی قطاروں میں بیٹھتے تاکہ ان پر ہر وقت استاد کی نظر پڑتی رہے۔ زیادہ عمر کے لڑکے اور لکھنے پڑھنے میں تیز طالب علم بالکل پیچھے بیٹھا کرتے تھے۔ ایک جماعت بلند آواز سے اپنا سبق پڑھتی اور دوسری جماعتوں کے لڑکے اور لڑکیاں اپنی اپنی کتابیں پڑھنے یا سوال حل کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ ال کو سکول بہت غیر دلچسپ معلوم ہوا۔ اس کے پاس صرف پہلا قاعدہ اور ہجے سکھانے کی کتاب تھی، اسی سے وہ ہجے بھی سیکھتا اور سبق بھی لیتا۔ وہ بہت جلد وہ تمام چھوٹی چھوٹی کہانیاں زبانی یاد کر لیں جو اسے پڑھنا پڑتی تھیں یا جن کے مشکل الفاظ کے معنی یاد کرنا پڑتے۔ اسے اپنی کتابوں سے ان اہم سوالات کا کوئی جواب نہیں ملتا تھا جو اس کے ہمیشہ مصروف رہنے والے دماغ میں ہر وقت ابلتے رہتے تھے۔ اس کی پہلی کتاب میں صرف اتنا لکھا تھا کہ ’’اے‘‘ سے ’’ایپل‘‘ (سیب) ہوتا ہے اور ال نے یہ بہت جلد یاد کر لیا مگر کوئی سرخ کیوں ہوتا ہے اور کوئی سبز کیوں؟ اس کے بیج چھوٹی چھوٹی تھیلیوں کے اندر بیج دان میں کیوں بند ہوتے ہیں؟ اس کی کتاب میں ان اہم سوالات میں سے ایک کا بھی جواب نہیں تھا۔ اس کی عادت تھی کہ وہ اپنا وقت گھر سے باہر گزارا کرتا تھا مگر سکول میں اسے لگاتار کئی گھنٹے تک جماعت میں بیٹھنا پڑتا۔ یہ اسے بالکل پسند نہیں تھا۔ یہ چھوٹا سا لڑکا شروع ہی سے مسلسل اور انتھک سوالات کرنے کا عادی تھا۔ اسے یہ معلوم کرنے کا شوق تھا کہ پانی پہاڑی سے نیچے کیوں بہتا ہے؟ برف صرف سردیوں میں کیوں گرتی ہے اور قوس قزح میں اتنے خوبصورت رنگ کہاں سے پیدا ہو جاتے ہیں؟ ہر وقت اور ہر شخص سے سوالات کرنے کی وجہ سے ال کا نام ہی ’’کیوں‘‘ پڑ گیا تھا۔ اس کے گھر والے اس کے سوال سن کر مسکراتے تو ضرور تھے مگر جواب دینے کی بھی کوشش کرتے تھے۔ کبھی کبھی وہ مان لیتے تھے کہ انہیں اس کے سوال کا جواب معلوم نہیں ہے۔ کبھی وہ اس سے کہتے کہ وہ اس وقت تک انتظار کرے جب تک وہ خود پڑھنے اور اپنے سوال کے جواب خود معلوم کرنے کے قابل نہ ہو جائے۔ سکول میں ال کا استاد کبھی اس کے سوال کا جواب نہیں دیتا تھا۔ وہ بہت چڑ چڑا تھا اور اسے بات بات پر غصّہ آجاتا تھا۔ ال اس سے کوئی سوال پوچھتا تو وہ اسے جھڑک دیتا اور اپنی کتاب پڑھنے کا حکم دیتا۔ کبھی کبھی وہ اسے ڈانٹ کر کہتا: ’’لڑکے گستاخ کیوں بنتے ہو؟ اگر تم خیال کرتے ہو کہ تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو تو میاں عقل مند میری جگہ آ جائو اور جماعت کو پڑھانا شروع کر دو۔‘‘ ایسی باتیں سن کر تمام طالب علم ہنس دیتے اور ال اداس ہو جاتا تھا۔ 1855ء میں ایک دن ال اپنے گھر واپس گیا۔ سکول میں نام لکھائے ہوئے اسے صرف تین مہینے ہوئے تھے۔ اس کی پیشانی پر بل پڑے ہوئے تھے جیسے وہ کوئی بہت بڑی گھتی سلجھانا چاہتا ہو۔ اس نے اپنی سلیٹ اور کتاب کھانے کی میز پر رکھ دی اور باورچی خانے میں چلا گیا جہاں اس کی ماں نے کھانا پکانا شروع ہی کیا تھا۔ ’’امّی! پراگندہ ذہن کسے کہتے ہیں ‘‘؟ ال نے سوال کیا۔ مسز ایڈیسن نے چولھے سے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا:’’کسی شخص کا دماغ ٹھیک نہ ہو اور وہ اول جلول باتیں کرے تو اس کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔‘‘ (جی- گلینوڈ-کلارک کی تصنیف ’’ایڈیسن:عظیم موجد کی داستانِ زندگی‘‘ سے مقتبس) -:

KhUsHi
04-11-2015, 11:53 AM
Thanks for great sharing