PDA

View Full Version : دنیائے نفسیات کی بھول بھلیاں : ذہنی دباؤ ب



intelligent086
03-24-2015, 07:55 AM
دنیائے نفسیات کی بھول بھلیاں : ذہنی دباؤ بُرا ہے تو اچھا بھی!



http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/12555_47031322.jpg


تحسین بانو
سویرے آپ گھر سے نکلے، تو ایک حادثے سے بال بال بچے۔ دفتر پہنچے، تو وہاں کسی مسئلے پر ایک ساتھی سے الجھ گئے۔ شام کو گھر وارد ہوئے، تو سوئی گیس اور بجلی کے بل ہاتھ میں پکڑے بیوی نے استقبال کیا۔ بس اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، ذہنی دبائو کا ایسا مسئلہ ہوا کہ آپ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ جوان ہو یا بوڑھا اور بچہ، ہر انسان کو دن میں کبھی نہ کبھی ذہنی دبائو سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ دبائو پھر خیالات پر اثرانداز ہوتا اور صورت حال تک تبدیل کرنے کی قدرت رکھتا ہے لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی، ذہنی دبائو ہمارے اندر جسمانی تبدیلیاں بھی پیدا کرتا ہے۔ تب انسانی جسم مختلف ہارمون خارج کرتا ہے جو ہمیں حملہ کرنے پر تیار کرتے یا فرار ہونے پہ اکساتے ہیں۔ یہی کیمیائی مادے پھر ہمارا بلڈپریشر بڑھاتے اور دل کی دھڑکن بڑھا دیتے ہیں، یوں ہم تیز تیز سانسیں لینے لگتے ہیں۔ مزیدبرآں یہی حالت ہماری یادوں اور سیکھنے کی صلاحیت پر بھی اثرات مرتب کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک طالب علم خوب تیاری کرکے امتحان دینے گیا۔ لیکن وہ حسب توقع اچھا امتحانی پرچہ نہیں دے سکا۔ دوران امتحان وہ جوابات کے اہم حصے بھول گیا۔ وہ پھر اسے کئی گھنٹوں بعد یاد آئے۔ یادداشت کھونے کی ایک بڑی وجہ وہ ذہنی دبائو تھا جو امتحان سے خوف کھانے کے باعث پیدا ہوا۔ اس نے عارضی طور پر طالب علم کے حواس مختل کر دیئے۔ ذہنی دبائو کے یہ اثرات ماہرین نفسیات کو عرصہ دراز سے معلوم ہیں لیکن اب تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ نفسیاتی و جسمانی کیفیت دراصل منفی اور مثبت دونوں پہلو رکھتی ہے۔ تجربات سے پتا چلا ہے کہ مخصوص حالات میں ذہنی دبائو ہماری قوت یادداشت بڑھا دیتا ہے، اگرچہ ضروری نہیں کہ ہمیں وہ معلومات یاد آجائے جو ہم کو کامیاب کر دیں۔ بلکہ جو طالب علم دوران امتحان سبق یاد نہ کر پائیں، انھیں یہ ضرور یاد رہتا ہے کہ اس وقت بہت ذہنی دبائو، پریشانی اور ’’ٹینشن‘‘ سے گزرے تھے۔ ماہرین نفسیات نے دریافت کیا ہے کہ جذباتی طور پر ہیجان انگیز لمحات… چاہے وہ منفی ہوں یا مثبت غیرمعمولی طور پر یادداشت میں محفوظ رہتے ہیں۔ مثلاً آپ پچھلے ایک سال کے دوران اپنے نمایاں تجربات یاد کیجیے، بیشتر کا تعلق خوشی، تکلیف، ذہنی دبائو، غم وغیرہ سے ہوگا۔ طویل عرصے سے ماہرین یہ جاننے کی کوشش میں تھے کہ جذبات یادداشت کی تشکیل و تشریح میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ اب پچھلے چند برسوں میں تحقیق و تجربوں سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ذہنی دبائو کے اثرات کا انحصار وقت اور مدت پر ہوتا ہے۔ ان دونوں کی تفصیل جان کر معلوم کرنا ممکن ہے کہ ذہنی دبائو یادداشت بڑھائے گا یا گھٹائے گا۔ ماہرین پر یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ خاص مدت سے گزر کر ذہنی دبائو نقصان دہ بن جاتا ہے۔ ہمارا دفاعی نظام جب ہم خود کو نازک یا خطرناک صورت حال میں پائیں، تو ہمارے جسم کا قدرتی دفاعی نظام بیدار ہوجاتا ہے۔ پہلی نشانی کے طور پر ہمارے دماغ کی گہرائی میں واقع ایک عضو، زیرِاندرون حرم (Hypothalamus) الارم بجا دیتا ہے۔ اس الارم کے باعث پھر وقفے وقفے سے تحریکیں جنم لیتی ہیں۔ پہلی سرگرمی مخصوص ہارمون خارج کرتی اس کے بعد دوسری سرگرمی مختلف ہارمونوں کا سیٹ چھوڑتی ہے۔ یہ دونوں سرگرمیاں دراصل ہمارے دفاعی ہتھیار ہیں۔ انہی کے ذریعے ہم نہ صرف ذہنی دبائو کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کو تیار ہوتے ہیں، بلکہ یہ ہماری یادداشت بھی بہتر بنا دیتی ہیں تاکہ مستقبل میں ایسی کسی صورت حال کا سامنا ہو، تو اس سے بخوبی عہدہ برا ہو سکیں۔ ٭پہلی سرگرمی: سب سے پہلے زیرِاندرون حرم، شارکی نظام اعصاب ( System Nervous Sympathetic) کے ذریعے برگردہ راس النخاع (Medulla Adrenal ) کو ایک اشارہ (سگنل) بجھواتا ہے۔ یہ مقام گردے کے اوپر واقع برگردہ غدہ کے مرکز میں موجود ہے۔ برگردہ راس النخاع پھر ذہنی دبائو سے وابستہ دو ہارمون ایڈرینالائن اور نوراڈرینالائن خارج کرتا ہے۔ یہی ہارمون جسم کو ’’مقابلہ کرنے یا فرار ہونے‘‘ کا ردِعمل ظاہر کرنے پہ آمادہ کرتے ہیں۔یہ ہارمون پھر بدن میں موجود توانائی کے ذخائر متحرک کرتے، خون کا دبائو بڑھاتے اور دل کی دھڑکن بڑھاتے ہیں تاکہ اعصاب کو زیادہ غذائیت ملے، سانس تیز چلاتے ہیں تاکہ دماغ تک زیادہ آکسیجن پہنچے، بطور دفاع درد ختم کرنے والے قدرتی دافع تکلیف مادے متعلقہ اعضاسے خارج کراتے اور پلاٹلیٹ بھی سرگرم کرتے ہیں تاکہ زخم لگنے کی صورت میں کم سے کم خون بہے۔ ٭دوسری سرگرمی: کچھ مدت بعد ہمارا جسم تین اعضا زیراندرون حرم، غدہ نخامیہ ( Gland Pituitary) اور برگردہ قشر ( Cortex Adrenal)کے ذریعے مزید ہارمون خارج کرتا ہے۔ سب سے پہلے زیراندرون حرم سے کورٹیکوٹروفین ریلیزنگ ہارمون نکل کر باریک ریشوں کے خصوصی نظام ہوتے ہوئے غدہ نخامیہ تک پہنچتا ہے۔ یہ بادام جیسا عضو دماغ کے نچلے حصے میں واقع ہے۔غدہ نخامیہ میں کورٹیکوفروفین کے باعث دوسرا ہارمون، ایڈرینو کورٹیکوٹروفک ہارمون خارج ہوتا ہے۔ یہ دوسرا ہارمون خون کے ذریعے بہتا ہوا برگردہ راس النخاع تک پہنچتا اور تیسرا ہارمون، کورٹیسول خارج کراتا ہے۔ یہی کورٹیسول ذہنی دبائو سے متعلق سب سے اہم ہارمون ہے۔ کورٹیسول ، ایڈرینالائن اور نوراڈرینالائن کو تقویت پہنچاتا اور ساتھ ساتھ ہمارے جسم کو معمول کی حالت پر لاتا ہے۔ یہ بدن کے دفاعی نظام کو مضبوط بناتا اور غذائی چکنائی (Fats) کو گلائیکوجن میں بدلتا ہے تاکہ توانائی کے ذخائر ازسرِنو بھر سکیں۔یہ علیحدہ سرگرمیاں واضح کرتی ہیں کہ ذہنی دبائو ہماری یادداشت پر متناقص اثر کیوں ڈالتا ہے۔ پہلی سرگرمی ہمارے ادراک میں اضافہ کرتی اور ہمارا تجربہ بڑھاتی ہے لیکن دوسری سرگرمی ہماری معلومات میں اضافے کا عمل روک دیتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ امتحان والے دن دیر سے امتحانی مرکز پہنچے۔ تب آپ نے جو ذہنی دبائو محسوس کیا، اسے یاد کرنا آسان ہے۔ کیونکہ اس تجربے سے آپ خود گزرے۔ لیکن دوران امتحان آپ نے جواب یاد کرتے ہوئے جو ذہنی دبائو سہا، اسے یاد کرنا کٹھن ہے۔ وجہ یہ ہے کہ آپ نے جو جواب یاد کیا تھا، اس کے کئی گھنٹوں یا دنوں بعد آپ کو امتحانی ذہنی دبائو سے گزرنا پڑا۔ چوہوں پر تجربات جانوروں خصوصاً چوہوں پر کیے گئے تجربات بھی عیاں کرتے ہیں کہ ذہنی دبائو یادداشت اور عمل سکھلائی (Learning) پر کیسے اثرات مرتب کرتا ہے۔ واضح رہے کہ چوہے، مرغیاں اور دیگر ریڑھ دار جانور بھی ذہنی دبائو کے وقت ہماری طرح ہارمون اور نیوروٹرانسمیٹر خارج کرتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں کے مانند جانور بھی جگہیں اور واقعات یاد رکھتے ہیں۔ مثلاً ’’پچھلے دن مجھے کہاں خوراک ملی تھی؟‘‘، ’’میرا گھونسلا کہاں ہے؟‘‘، ’’کون سی جگہیں خطرناک ہیں اور وہاں نہیں جانا چاہیے؟‘‘ وغیرہ۔ وجہ یہ ہے کہ ذہنی دبائو سے وابستہ جو واقعات جنم لیں، وہ بقا کے لیے ضروری ہیں۔حیوانیات میں ذہنی دبائو کے ہارمون یادداشت پر کیا اثرات رکھتے ہیں، یہ جاننے کے لیے پچھلے دنوں ایک دلچسپ تجربہ ہوا۔ ماہرین نے ایک طشت میں پانی بھرا اور اس میں ایک چوہا چھوڑ دیا۔ چوہے کو علم نہ تھا کہ ٹب کے وسط میں شفاف شیشے کا بنا چبوترہ رکھا ہے جس پر چڑھ کر وہ پانی سے دور ہو سکتا تھا۔ شروع میں تو ہر چوہے نے ہاتھ پائوں مارتے ہوئے اتفاقاً چبوترہ دریافت کیا، لیکن جب پانچوں چوہوں کو کئی بار اس تجربے سے گزارا گیا تو انھوں نے چبوترے کے خاص نشان ذہن نشین کر لیے۔ پھر جیسے ہی انھیں پانی میں چھوڑا جاتا، وہ سیدھے چبوترے پر جا چڑھتے۔ خاص بات یہ ہے کہ سکھلائی کے اس عمل میں ذہنی دبائو سے وابستہ ہارمونوں نے خاص کردار ادا کیا۔ دراصل جب ماہرین نے دو چوہوں کے (ہارمون چھوڑنے والے) برگردہ غدود نکال دیئے، تو پھر چبوترہ ڈھونڈنے میں انھیں مشکلات پیش آئیں۔ یعنی چبوترے کی تلاش میں انھوں نے بقیہ تین چوہوں کی نسبت زیادہ وقت لگایا،لیکن ماہرین نے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ انسان ہو یا حیوان، اگر مسلسل ذہنی دبائو میں مبتلا رہے، تو فائدے کے بجائے نقصان پہنچتا ہے۔ ذہنی دبائو پھر ان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں کند کرتا ہے اور وہ روزمرّہ کے کام انجام دیتے ہوئے دشواری محسوس کرتے ہیں۔ ٭…٭…٭

Forum Guru
03-24-2015, 08:45 PM
Zabardast SHaring Hai Ji