PDA

View Full Version : عشق کا قاف سے اقتباس



$low Poision
03-05-2015, 04:15 PM
مسجد ِ نبوی کےصحن میں بیٹھ کر گنبد ِ خضریٰ کو تکتےرہناسرمد کا سب سےپسندیدہ عمل تھا۔ وہ جب سےاپنے آقا کےشہر میں آیاتھا اس نےنماز اور درود کےعلاوہ اورکسی شےکی طرف دھیان ہی نہ دیا تھا۔ ہوٹل میں کپڑےبدلنےیا غسل کےلئےجاتا ورنہ اس کا سارا وقت وہیں گزرتا۔
اللہ کےحبیب کےحضور حاضر ہو کر اس نےجو کیف پایا تھا‘ اس کا اظہار لفظوں میں ممکن ہی نہ تھا۔ دل کی دھڑکنیں زبان کےساتھ صدا دیتی ہوئی‘ د رود شریف کےورد میں شامل رہتیں۔ ایک مہک تھی جو اسےہر طرف رقصاں محسوس ہوتی۔ ایک نور تھا جو ہر شےپر محیط نظر آتا۔ ایک سکون تھا جو اسےہوائوں میں تیرتا ملتا۔ آنکھیں بند کرتا تو اجالےبکھر جاتی۔ پلکیں وَا کرتا تو قوس قزح کےرنگ چھلک پڑتی۔ آقا کا خیال آتا تو نظر اشکوں سےوضو کرنےلگتی۔ واپس جانےکا خیال آتا تو جگر میں ایک ٹیس سی آنکھ کھول لیتی۔ مگر ‘ ہر ایک کیفیت میں مزا تھا۔ ایک لذت تھی۔ درد بھی اٹھتا تو سرور آمیز لگتا۔
آخری دن تھا جب وہ دربار ِ نبوی میں ہدیہ درود و سلام پیش کرنےکےبعد دعا کےلئےہاتھ اٹھائےکھڑا تھا۔ زبان گنگ تھی۔ لب کانپ رہےتھےاور دعا کےالفاظ کہیں گم ہو چکےتھی۔
کتنی ہی دیر گزر گئی۔ اس کے آنسو تھم ہی نہ رہےتھے۔ ہچکی بندھ گئی تو وہ کھڑا نہ رہ سکا۔ آہستہ سےوہ اپنی جگہ بیٹھ گیا۔چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا اور سسکنےلگا۔
”میرے آقا ۔ میرےمولا ۔میں کیا مانگوں؟ کوئی طلب ہی نہیں رہی۔ آپ کےدر پر آ گیا۔ اب اور کیا چاہوں؟ کس کےلئےچاہوں؟“
اور ”کس کےلئے“ کےالفاظ پر ایک دم اس کےتصور میں ایک چہرہ ابھرا۔
”ہاں۔ اس کےلئےسُکھ عطاکیجئے۔ “ دل سےایک بار پھر مہک نکلی ۔
”اپنےلئےبھی تو کچھ مانگ پگلے۔“ ایک سرگوشی نےاسےچونکا دیا۔ اس نےادھر ادھر نظر دوڑائی۔جس کی صدا تھی‘ وہ کہیں نظر نہ آیا۔لوگ اس سےدور دور تھے۔
”اس در پر آ کر کچھ نہ مانگنا بد نصیبی ہے۔ کچھ مانگ لے۔ کچھ مانگ لے۔“ کوئی اسےاکسا رہا تھا۔ اسےسمجھا رہا تھا۔ مگر کون؟ اس نےبار بار تلاش کیا۔ کوئی دکھائی نہ دیا۔تھک کر اس نےسر جھکا لیا اور آنکھیں موند لیں۔
”کیا مانگوں؟“ اب وہ خود سےسوال کر رہا تھا۔”کیا مانگوں؟ کیامانگوں؟“ اس کا رواں رواں پکار رہا تھا۔پھر جیسےیہ سوال جواب میں بدل گیا۔اسےاپنی زبان پر اختیار نہ رہا۔ اپنی طلب پر اختیار نہ رہا۔ اپنے آپ پر اختیار نہ رہا۔
”میرے آقا ۔ میں خام ہوں۔ ناکام ہوں۔ مجھےوہ دیجئے۔ وہ عطا کیجئےجو مجھےکامیاب کر دے۔“
ان الفاظ کےادا ہوتےہی جیسےاس کی زبان پر تالا لگ گیا۔ اس کا سارا جسم ہلکا ہو گیا۔ ہوا سےبھی ہلکا۔ وہ بےوزن ہو گیا۔ اس نےبات ان کی مرضی پہ چھوڑ دی تھی جنہیں اللہ نےاپنا حبیب بنایا اور لوح و قلم پر تصرف عطا کر دیا۔مانگےسےلوگ من کی مرادیں پاتےہیں۔ بِن مانگے‘ اپنی مرضی سےوہ کیا عطا کر دیں‘ کون جان سکتا ہے؟سرمد نےنفع کا سودا کر لیا تھا۔ ایسےنفع کا سودا‘ جس کےلئےاس کےپلےصرف اور صرف عشق کا زر تھا۔ عشق۔۔۔ جس سےاس کا ازلی و ابدی تعلق ظاہر ہو چکا تھا۔ عشق ۔۔۔ جس نےاسےہجر و فراق کی بھٹی میں تپا کر کندن بنانےکی ٹھان لی تھی۔

سرفراز احمد راہی : عشق کا قاف سے اقتباس

Arosa Hya
03-14-2015, 11:20 AM
Khobsorat treen

i can never forget this novel best one i ever read
full of peace
thank u to recall
it's beautiful to feel it!!

UmerAmer
03-14-2015, 02:22 PM
Zabardast

ayesha
03-15-2015, 05:01 PM
thanx for sharing...