PDA

View Full Version : کنفیوشس..... چینی تمدن کا استاد



intelligent086
03-02-2015, 10:57 AM
کنفیوشس..... چینی تمدن کا استاد


http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x12350_28635845.jpg.pagespeed.ic.rxB-AcMrpl.jpg

محمد عاصم بٹ
کنفیوشس کا فلسفہ حیات سقراط کی طرح انسان اور ریاست کی اخلاقی تعمیر و ترقی اور انصاف کو موضوع بناتا ہے، لیکن سقراط کی نسبت کنفیوشس کے فلسفہ حیات نے اپنی کم ہمہ گیری اور وسعت کے باوجود چینی قوم پر انمٹ اثرات مرتب کیے اور وہاں اشتراکیوں کی موجودہ فرمانروائی کے قیام تک تقریباً دو ہزار سال عوام کے دلوں پر حکمرانی کی۔ چینی قوم کی تعمیر و ترقی میں جتنا کردار کنفیوشس کا ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ اب اشتراکی سوچ نے کنفیوشس کے فلسفہ حیات کی تابناکی کو گہنا دیا ہے اور اسے پہلے جیسا درجہ قبولیت حاصل نہیں رہا، اتنا بھرپور کردار کوئی دوسرا فلسفہ ادا نہیں کرسکا۔ کنفیوشس کو چینی تاریخ کا سب سے بڑا استاد تسلیم کیا جاتا ہے۔ تاہم شروع میں یہ افکار کنفیوشس مت کی صورت میں منظم اور مربوط نہیں تھے۔ چن شاہی سلسلہ کے دور میں کنفیوشس کے افکار کے پیروکاروں کو پسپائی اختیار کرنی پڑی اور ان افکار کو ہر کہیں دبایا گیا، تاہم اس سلسلہ شہنشاہی کے زوال کے بعد کنفیوشس کے افکار کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی اور اسے ایک مذہب کا درجہ دیا گیا۔ کنفیوشس کی وفات کے بعد اس کے اقوال زریں کو ’Analects‘ کی صورت میں مرتب کیا گیا۔کنفیوشس کے اخلاقی اصول قدیم چینی ثقافت اور عقائد پر مبنی ہیں۔ روایت پرستی، خاندانی اخلاقیات اور معاشرتی اقدار کی پاس داری کنفیوشس مت کا طرہ امتیاز ہے۔ خاندانی نظام کا استحکام کنفیوشس کے نزدیک ایک مثالی ریاست کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ خود کنفیوشس کا دور اخلاقی توڑ پھوڑ کا دور تھا اور معاشرہ مجموعی طورپر تنزلی کا شکار تھا۔ چُو خاندان کے خلاف ریاستوں نے باغیانہ تحریکیں شروع کررکھی تھیں۔ایسی صورت حال میں کنفیوشس نے پرانے اخلاقی نظام کی پاس داری کا علم اٹھایا۔کنفیوشس کا سماجی فلسفہ دوسروں سے محبت کے اصول پر قائم ہے جس کے لیے وہ ’ren‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ اس اصطلاح کا ترجمہ اخلاص مندی، انسان دوستی کے روپ میں بھی کیا جا سکتا ہے جب کہ اس اصول کو کنفیوشس کے اس انتہائی معروف قول زریں میں بیان کیا گیا ہے،’’جس کی تم خود اپنے لیے خواہش نہیں کرتے، دوسروں کے لیے بھی اسے پسند مت کرو‘‘۔دوسروں سے محبت نفی ذات کے درجے تک پہنچے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جو لوگ یہ درجہ کمال حاصل کرلیتے ہیں ان کے بارے میں کنفیوشس کہتا ہے،’’وہ اطوار میں سادہ اور مزاجاً کم گو ہوتے ہیں‘‘۔کنفیوشس خاندان کو معاشرے کی اولین تربیت گاہ قرار دیتے ہوئے، گھر کے بزرگوں کے احترام اور ان سے محبت کو انسانیت سے محبت کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ آج کنفیوشس کے افکار کو کنفیوشس مت کے نام سے جانا جاتا ہے۔تاہم یہ کوئی مذہب نہیں، نہ ہی کنفیوشس نے کبھی اسے ایک مت یا مسلک کی صورت میں پیش کیا۔ اس نے حیات مابعد پر بھی کبھی اظہار خیال نہیں کیا، نہ ہی اسے مابعدالطبعی مسائل سے کوئی دلچسپی تھی جن کی بنیاد پر مذاہب اپنا اخلاقی اور معاشرتی نظام استوار کرتے ہیں۔ اس کی دلچسپی کا مرکز انسان کی اخلاقی اور سیاسی شخصیت کی تعمیر و ترقی تھا۔ روحانی معاملات میں کنفیوشس نے عمداً کبھی کوئی رائے نہیں دی۔ لیکن چینیوں نے اسے ایک مذہب ہی کی صورت میں قبول کیا۔ آج یہ چین کے پانچ بڑے مذاہب میں شمار کیا جاتا ہے اور بدھ مت کے بعد اس کے ماننے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔کنفیوشس مت کا سب سے زیادہ اصرار اخلاقی کردار کی تعمیر پر ہے۔ علم کے حصول کو بھی وہ اخلاقی فضیلت قرار دیتا ہے۔ اخلاص، نیک نیتی، ضبط نفس، ایثار، اعلی ترین فضیلتیں ہیں جب کہ بہترین اخلاقی اقدار روایت سے مربوط ہوئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔وہ قدیم چینی روایت کا ایسا دلدادہ تھا کہ خود کو اس کا خوشہ چیں قرار دیتا۔ اپنے اقوال زریں کو بھی وہ اسی روایت سے منسوب کرتا اور خود کو ان کا خالق تصور نہیں کرتا تھا۔ چینی روایت و ثقافت ایسی تمام اقدار کی حامل ہے جن سے نئی دنیا کی تعمیر کے لیے ضروری اسباب حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ اخلاقی فلسفہ مذہبی عبادات اور خیرات، سماجی و سیاسی اداروں اور روز مرہ آداب زندگی سے متعلق اصول و قوانین پر مشتمل ہے۔ اسی اخلاقی فلسفے پر کنفیوشس نے اپنے سیاسی خیالات کی بنیادیں استوار کیں۔ایک باکردار شخص غیر قانونی فعل سے احتراز کسی طرح کے احساس ندامت سے بچنے کے لیے کرے گا جب کہ محض قانون شکنی کی سزا ہی کافی نہیں ہے انسان کو جرم سے دور رکھنے کے لیے۔وہ بادشاہت کے خلاف نہیں تھا لیکن حکمرانوں کے آمرانہ رویے کو غیر اخلاقی اور ناقابل قبول قرار دیتا اور ان کے اختیارات کو محدود کرنے پر اصرار کرتا تھا۔ عوام کے ساتھ نرم اور منصفانہ رویہ کو حکمرانوں کی بنیادی ذمہ داری قرار دیتا۔ عوام کو صالح حکمرانوں کی اطاعت کی تلقین کرتا تھا۔ قدیم اخلاقی و سماجی معیارات اس کو بھاتے تھے اور وہ لوگو ں کو انھیں اپنانے کا درس دیتا۔کنفیوشس کا فلسفہ تعلیم بھی چھ فنون پر مشتمل ہے، تیر اندازی، خوش نویسی، موسیقی، رسوم، حساب داری اور بگھی بانی جب کہ تعلیم یافتہ آدمی سے کنفیوشس کی مراد ایک ایسے انسان کی تھی جو دوسروں کو عزت اور وقار کے ساتھ جینے کی تعلیم دے سکے۔ کنفیوشس کا سیاسی فلسفہ احساس ذمہ داری پر مبنی ہے۔ہر فرد کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے پر توجہ کرنی چاہئے جو کردار کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں جب کہ کردار روایت میں موجود اقدار کی پیروی سے مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ اچھی حکومت کے بارے میں وہ کہتا ہے ،’’اچھی حکومت اس بات پر مبنی ہے کہ حکمران ایک حکمران کے طورپر کام کرے، وزیر وزیر کے طورپر، باپ باپ کے طور پر اور بیٹا بیٹے کے طورپر‘‘۔ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ضبط نفس حاصل کریں، اپنے محکوموں سے محبت کا سلوک روا رکھیں۔ اسی طرح عوام کو بھی چاہئے کہ وہ قانون کی حکمرانی کے لیے اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کریں۔ قوانین کے اطلاق کے ذریعے سزائیں دے کر عوام کو جرم سے دور کرنے اور ان میں مثبت اقدار کو فروغ دینے کی کوشش کی نسبت کنفیوشس ایک دوسرا طریقہ کار اختیار کرنے پر اصرار کرتا ہے کہ حکمران اپنے اعلی طرز حکومت اور رویے سے عوام میں اخلاقی فضیلت کو بڑھانے کی کوشش کرے تاکہ لوگوں میں احساس ذمہ داری پیدا ہو اور وہ سزا کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے احساس ندامت کی وجہ سے جرم اور گناہ سے گریز کریں۔برے حکمران بری عوام کے خالق ہوتے ہیں۔یوں حکمران کا اخلاقی طورپر اعلی درجے پر فائز ہونا کنفیوشس کے لیے معاشرتی اصلاح کے عمل میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ تمام عہدوں پر مطلوبہ اہلیت کے حامل افراد کی تعیناتی معاشرے کی اخلاقی عظمت کا تعین کرتی ہے۔ چن خاندان کے دور حکومت میں کنفیوشس کے افکار پر بندش قائم ہوئی اور اس کے پیروکاروں کو اذیتیں جھیلنی پڑیں۔ کئی ایک کنفیوشس سکالروں کو دار پر ٹانگ دیا گیا اور ان کی کتابوں کو سرعام نذر آتش کیا گیا، لیکن دوسری صدی قبل مسیح میں ہان خاندان کے دور حکومت میں کنفیوشس کے افکار کو ایک بار پھر شہرت اور سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی۔140قبل مسیح میں تانگ شاہی خاندان نے کنفیوشس کے فلسفہ کو چین میں سرکاری عہدوں کے حصول کے لیے دیئے جانے والے امتحانات میں نصاب کا حصہ بنایا گیا۔ انیسویں صدی تک یہ فلسفہ نصاب کا حصہ رہا۔ تاؤ مت چوں کہ مذہب اور انسانی زندگی کے سرّی پہلوؤں پر زیادہ اصرار کرتا ہے، اس لیے کنفیوشس مت کے پھیلاؤ میں چین میں موجود کوئی دوسرا فلسفہ رکاوٹ نہیں بنا۔ بدھ مت نے چین تک پہنچنے میں کچھ وقت لیا۔چین میں اشتراکی سوچ کے ظہور نے کنفیوشس مت کی شہرت کو دھندلا دیا۔ اس کی قدامت پرستی کو خاص طورپر اشتراکیوں نے ہدف تنقید بنایا۔ کنفیوشس کی تصانیف میں سب سے معروف اس کے اقوال زریں پر مشتمل ایک دستاویز ہے ،جسے چینی زبان میں ’lunyu‘ کا عنوان دیا جاتا ہے۔ یہ کتاب کنفیوشس کے شاگردوں نے اس کی وفات کے بعد تقریباً دوسری صدی قبل مسیح میں مرتب کی۔ تاہم اس کے علاوہ بھی کنفیوشس نے عصری اور ملازمتی ضرورتوں کے تحت بھی چند تحریریں چھوڑیں۔ لیُو کے بارہ ڈیوکوں کا تاریخی حال بھی ایک کتاب ’بہار اور خزاں کی دستاویزات‘ کی صورت میں درج کیا۔ اس کے علاوہ زندگی کے آخری برسوں کے دوران، جو اس نے اپنے شہر میں تعلیم و تدریس میں گزارے، اس نے چینی کلاسیکی ادب کی کتابیں’نغمات کی کتاب‘، اور ’دستاویزات کا مجموعہ‘ کی ترتیب نو کا کام کیا۔ ٭…٭…٭

UmerAmer
03-02-2015, 03:10 PM
Bohat Khoob

KhUsHi
04-22-2015, 02:50 PM
Thanks for great sharing