PDA

View Full Version : دھاندلی کے خلاف جوڈیشنل کمیشن ....رکاوٹ کیا ہ&



intelligent086
01-15-2015, 12:31 PM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x11827_32305204.jpg.pagespeed.ic.CJYr8ynkdx .jpg
سلمان غنی
خیال تھا کہ سانحہ پشاور کے بعد حکومت اور تحریک انصاف کے درمیا ن جو اتفاق سامنے آیا اس کا مظاہرہ مستقبل میں بھی دیکھا جائے گا ۔ تحریک انصاف کے سربراہ کی بھی سب نے تعریف کی کہ انہوں نے سیاسی ہٹ ڈھرمی کی بجائے حکومت کے ساتھ کھڑے ہوکر مثبت سیاست کا مظاہرہ کیا ۔ اس مثبت رد عمل پر عمران کا موقف تھا کہ انہوں نے قومی مفاد کو پیش رکھ کر دھرنا سیاست ختم کی او رامید تھی کہ حکومت جوڈیشل کمیشن بنا کر ہمیں مثبت پیغام دیگی ۔ سانحہ پشاور کے بعد حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے کئی اہم رائونڈ ہوئے لیکن نتیجہ کچھ نہ نکل سکا حالانکہ حکومت نے تاثر دیاتھا کہ وہ ہر صورت عدالتی کمیشن بنا کر مسئلہ حل کرنیکی کوشش کریگی۔ وزیر اطلاعات کے بقول ہم جوڈیشل کمیشن بنا کر عمران کو شادی کا نیا تحفہ دیں گے اسی دوران عمران خان نے حکومتی رویوں کے پیش نظر 18جنوری کو اسلام آباد میں دھرنا کنونشن کا اعلان کردیا جس میں وہ اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے ۔ عمران کا کہنا ہے حکومت نے مفاہمت کو سنجیدگی سے نہیں لیا عدالتی کمیشن نہ بنا تو وہ حکومت کو کسی بھی صورت نہیں چلنے دیں گے ۔لاہور کے حلقہ این اے 122میں جہاں عمران اور سردار ایاز صادق کا مقابلہ تھا الیکشن ٹربیونل نے اپنے حالیہ فیصلے میں صاف کہا ہے کہ 34ہزار ووٹوں کی نشاندہی ممکن نہیں ہوسکی ۔ ٹربیونل نے بوگس ووٹوں کی نہیں انتخابی بے ضابطگیوں کی بات ضرور کی ہے ۔ اس فیصلے سے عمران کے موقف کو نئی طاقت ملی لیکن ٹربیونل کے فیصلے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سردار ایاز صادق نے خود دھاندلی کی ۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور رحمان ملک نے بھی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بغیر کسی تاخیر کے عدالتی کمیشن بنا کر مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھائیں ۔ سراج الحق کے بقول عدالتی کمیشن نہیں بنتا تو دوبارہ دھرنا سیاست شروع ہوگی جو حکومت کے حق میں نہیں ہوگی ۔اگرچہ حکومت یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ تو عدالتی کمیشن بنانے کیلئے تیار ہے لیکن عدالتی کمیشن کے طریقہ کار پر اصل رکاوٹ تحریک انصاف ہے ۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بقول تحریک انصاف عدالتی کمیشن بنانے کے معاملے میں لچک کا مظاہرہ کرے تو کمیشن فوری طور پر بن سکتا ہے ۔ لگتا ہے کہ حکومت کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کا اب وہ سیاسی دبائو نہیں رہا جو دھرنا سیاست کے نتیجے میں سامنے آیا تھا اس لیے اب تحریک انصاف کے معاملے میں زیادہ جذباتی ہونے کی بجائے معاملات کو ٹال مٹول کے ساتھ آگے بڑھایاجائے لیکن تحریک انصاف کے سیاسی تیور بتارہے ہیں کہ وہ معاملہ کو آسانی سے ختم نہیں ہونے دیں گے۔ اس لیے اب اگر فوری طور پر عدالتی کمیشن نہیں بنتا تو عمران خاموش رہنے کی بجائے نئے انداز سے حکومت کیخلاف میدان میں کود پڑیں گے جو قومی سیاست اور حکومت دونوںکے حق میں نہیں ہوگا ۔ عمرا ن خان کی جانب سے اگر دوبارہ تحریک شروع ہوتی ہے تو اس کا براہ راست اثر دہشتگردی کی جنگ پر پڑے گا کیونکہ جو قومی اتفاق رائے سامنے آیا ہے اس کو خاتمہ ہوگا اور دونوں سیاسی فریق ایک دوسرے کیخلاف میدان میں ہونگے ۔ حالانکہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف دونوں کسی محاذ آرائی کی سیاست کا حصہ بننے کی بجائے اپنی ساری توجہ دہشت گردی سے نمٹنے میں لگائیں ۔ اس سلسلے میں بڑی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر طرح سے محاذ آرائی کی سیاست سے بچنے کی کوشش کرے ۔ یہ حکومت کیلئے ہی بہتر ہوگا کہ وہ عدالتی کمیشن تشکیل دیکر مفاہمت کی سیاست کی طرف پہل کرے او راس کا مثبت جواب تحریک انصاف کی جانب سے بھی آنا چاہیے ۔ عمران خان حکومت کو فوری طور پر 18جنوری کی ڈیڈ لائن دے چکے ہیں جس میں اب محض چند دن ہی رہ گئے ہیں اس لیے بہتر ہوگا کہ حکومت اس سے قبل ہی عدالتی کمیشن کا اعلان کرکے معاملات خراب ہونے سے بچائے کیونکہ پہلے ہی ملک میں فوجی عدالتوں اور دینی مدارس کے حوالے سے حکومت اور مذہبی جماعتوں کے درمیان مسائل پیدا ہوگئے ہیں ۔ دینی جماعتوں نے اپنا اجلاس بھی بلالیا ہے اور مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق اس معاملے میں کافی سرگرم نظر آتے ہیں اگرچہ وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت دینی مدارس کیخلاف کریک ڈائون کا منصوبہ نہیں رکھتی اور جو بھی اقدامات کیے جائیں گے ان میں مذہبی جماعتوں کی قیادت سے مشاورت کے عمل کو یقینی بنایا جائے گا ۔ اس وقت قوم دہشتگردی سے نمٹنے میں ایک پالیسی اور اتحاد کی صور ت میں آگے بڑھنا چاہتی ہے ۔ اس موقع پر سیاسی عدم استحکام، سیاسی محاذ آرائی اور الزامات کی سیاست کسی بھی صورت ملک ،جمہوریت اور امن وامان کی صورتحال کیلئے بہتر نہیں ہوگی ۔ اس وقت قوم سیاستدانوں کی طرف دیکھ رہی ہے اور توقع کرتی ہے کہ سیاسی جماعتیں قومی مفاد میں ایک ہوکر آگے بڑھیں گی لیکن اگر ایسا نہ ہوسکا تو اس سے یہ خیال آگے بڑھے گا کہ سیاسی جماعتیں قومی معاملات میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی بجائے محاذ آرائی کی سیاست کرکے اپنے لیے نہ صرف مسائل پیدا کرنا چاہتی ہیں بلکہ ملک کیلئے مزید بحران پیدا کررہی ہیں ۔ اس لیے گیند حکومت اور سیاسی جماعتوں کی کورٹ میں ہے اور دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہیں او راس کا ملک کو کیا فائدہ ہوگا۔ دہشتگردی سے نمٹنے میں اہم کردار صوبائی حکومتوں کا بھی ہے ، اس سلسلے میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں ۔ وزیر داخلہ چودھری نثار نے بھی پنجاب کے اقدامات کی تعریف کی ہے اور دیگر صوبوں کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ پنجاب کی تقلید کرتے ہوئے اہم اقدمات کریں ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب خود تمام معاملات کی نگرانی کررہے ہیں، اس کے باوجود انہیں چاہیے کہ خاص طور پر پنجاب پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی پر خصوصی توجہ دیں ، کیونکہ ان اداروں کی کارکردگی بہتر نہیں ہوگی تو انکے تمام تر اقدامات کو بہتر شکل نہیں دی جاسکے گی ،اس لیے وزیر اعلیٰ پنجاب کو محض پولیس ، انتظامیہ اور انٹیلی جنس اداروں کے دعووں پر رہنے کی بجائے ان میں اصلاحات کے بڑے فیصلے کرنے ہونگے ، وگرنہ دہشتگردی کی یہ جنگ متاثر ہوگی او ر عوام وزیر اعلیٰ کو بھی ان واقعات کا ذمہ دار سمجھیں گے۔ ٭…٭…٭

KhUsHi
02-03-2015, 07:38 AM
Thanks for nice sharing