PDA

View Full Version : قائداعظمؒ کی کامیابی کا راز



intelligent086
12-25-2014, 11:47 AM
قائداعظمؒ کی کامیابی کا راز...!


http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x11597_82954642.jpg.pagespeed.ic.7NZc9n6LE7 .jpg
یہ سوال بار بار میرے سامنے آتا ہے… کیوں؟ اس لیے کہ بظاہر قائداعظم میں عوامی لیڈروں کی مسلمہ خصوصیات نہیں تھیں ،لیکن آج تک مسلم قوم نے کسی ایک رہنما کو اتنی عقیدت، اتنی اطاعت کا مرجع نہیں بنایا۔ ٭قائداعظم کبھی قید نہیں ہوئے۔ ٭قائداعظم رہنے سہنے میں عوامی بہروپ نہیں بھرتے تھے۔ ٭آپ نے تملق اور ظاہری انکسار سے کام نہیں لیا۔ ٭میدان ِسیاست کے تمام کہنہ مشق کھلاڑی آپ کے مخالف تھے۔ آپ کے ہم رکاب آرام طلب، گمنام قسم کے لوگوں کی اکثریت تھی۔ عوام محض قائداعظم کے نام کو جانتے تھے اور ان کے نام کے سہارے پر ہر طرح کی قربانی کرتے تھے۔ ہندو اور انگریز کی منظم کوششوں کے باوجود قائداعظم کامیاب ہوئے۔ کیوں؟ میں تاریخی وجوہ پر بحث نہیں کرتا، وہ سب کو معلوم ہیں۔ ان وجوہ کا ہونا ہر دنیوی لیڈر کی کامیابی کے لیے ضروری ہے، لیکن محض تاریخی وجوہ سے قوموں کی حالت میں انقلاب نہیں آتا۔ عموماً منظم جماعت اور عظیم شخصیت کے لیڈروں کے اجتماع سے انقلاب امم پیدا ہوتا ہے۔ قائداعظم کو منظم جماعت میسر نہ آئی، تجربہ کار مددگار حاصل نہ تھے، لیکن انہوں نے ایک تاریخی انقلاب پیدا کر دیا۔ یہ کس طرح ہوا؟ ایک دن میرے محبوبؐ کے حضور میرے محبوبؐ کے پیارے حاضر تھے۔ کسی نے کہا: ’’آپ کو صدیق اکبرؓ میں کیا ممتاز خصوصیت نظر آتی ہے؟‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جہاد، خیرات، عبادت میں تم سب ممتاز ہو، ایک سے بڑھ کر ہے، مگر ابوبکر صدیق ؓ میں ایک خاص ادا ہے، ایک خاص بات ہے‘‘۔ وہ بات کیا تھی؟ اس کا ذکر رسول مقبولؐ کے اپنے الفاظ ہی میں سنئے فرمایا:شیئا وقع فی قلبہ (ترجمہ): ’’ایک شے ہے، جو صدیق اکبرؓ کے دل میں پیوست ہے‘‘۔ اس کا تعلق ظاہری اطوار و خیالات سے نہ تھا، یہ دل کی بات تھی۔ بفرق مراتب حضرت قائداعظم کے محبوب عوام و اسلام ہونے کی وجہ بھی قائداعظم کی قلبی کیفیت تھی ،جس کا اندازہ، جس کا احساس عوام کے قلب کو ہوتا تھا۔ یہ منطق و استدلال کا مقام نہ تھا، جس کے متعلق شاعر کہتا ہے: آنکھ سے آنکھ، دل سے ہوں دل کی باتیں وائے وہ حرف تمنا جو زباں تک پہنچے مسلم عوام جانتے تھے، ان کا دل چاہتا تھا کہ یہ ’’قائد پشمینہ پوش‘‘ ایسا دل رکھتا ہے، جس کی دھڑکن ان کے اپنے دل کی دھڑکن کی ہم آواز، وہی لے، وہی زیروبم ہے۔ اس کا تعلق کپاس و حریر سے نہ تھا، کھدر اور ریشم سے نہ تھا، طبقاتی کشمکش سے نہ تھا۔ یہ دل کی بات تھی۔ ایک شے تھی، جو قائداعظم کے قلب میں واقع ہوئی تھی، شیئا وقع فی قلبہ رسول ؐ مقبول کے یہ الفاظ کس قدر حقیقت افروز ہیں۔ ان میں کتنی جاودانی صداقت ہے۔ چودہ سو سال پہلے کا ارشاد آج کے واقعات پر بھی حاوی ہے۔ اس قلبی کیفیت کا تجزیہ کیجئے تو اس میں سے بہت سی باتیں نکلیں گی، لیکن ایک خصوصیت واضح ہے اور وہ خلوص ہے، بے پناہ خلوص۔ وہ خلوص جو پہاڑوں سے ٹکرائے تو انہیں پاش پاش کر دیتا ہے، وہ خلوص جو ناممکن کو ممکن سمجھ کر ممکن بنا دیتا ہے، وہ خلوص جو ہر محبت، ہر دشمنی، ہر عمل کو خالصتاً اللہ کر دیتا ہے۔ مجھے قائداعظم سے پہلی بار لندن میں ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت وہ سیاسیات سے کنارہ کش تھے۔ اس سے پہلے میں نے انہیں بارہا دیکھا، ان کی تقریروں کو سنا تھا لیکن تخلیے میں گفتگو کا موقع نہ ملا تھا۔ چند سال بعد وہ لاہور میں تشریف لائے اور لیگ کو بیدار کرنا چاہا۔ ان دنوں سر فضل حسین زندہ تھے۔ یہ 1936ء کی بات ہے۔ اس ملاقات میں عملی سیاسیات کی باتیں سننے کا موقع ملا۔ تیسری بار دہلی میں حاضر ہوا اس وقت وہ قائداعظم تھے۔ دہلی میں کشمیر کے سلسلے میں بات ہوئی۔ مجھے ان کے طریق کار سے اطمینان نہیں تھا، میں اسے خلاف مصلحت سمجھتاتھااور میں نے یہ بات بے جھجھک عرض کی۔ اس وقت بھی وہی متبسم آنکھیں، وہی مشفق چہرہ تھا جو لندن میں نظر آیا تھا، حالانکہ میں ایک غیر سیاسی نامعروف شخص تھا اور وہ قائداعظم تھے۔ دہلی میں ایک بار اور ملا حسب ِارشاد حاضر ہوا۔ میں کچھ کچھ بیمار تھا۔ انہوں نے دعا دی، بزرگانہ شفقت سے دعا دی۔ اس کے بعد ٹیلیفون پر دوبار بات چیت ہوئی اور بس۔ ہزاروں آدمیوں کو شرف ملاقات حاصل ہوا۔ لوگوں نے قائداعظم کو دیکھا۔ میں نے ایک عظیم انسان دیکھا۔ ایک دیدہ ور انسان دیکھا، اہل دل انسان دیکھا، مگر بڑے ضبط و تحمل والا صاحب دل انسان۔ قائداعظم انسان تھے، عظیم شخصیت کے انسان تھے اور انسانوں کی طرح اجتہادی غلطیوں کے بھی مرتکب ہوئے، وہ اجتہاد جس کی غلطی کو بھی ثواب کہا گیا ،لیکن ایک روش میں ان سے کبھی لغزش نہیں ہوئی وہ روش خلوص کی تھی، ان کے قلب کی کیفیت تھی۔ برطانیہ، عظمیٰ کا استبداد، کانگریس کا جاہ وجلال، ہندو کی دولت، قوم پرست مسلمانوں کی سیاست، اپنے عوام کی بے نظمی اور پس ماندگی، کیسے کیسے مواقع تھے۔ ایک شخص کے راستے میں کیسے کیسے پہاڑ تھے، مگر اس کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی، اس کے خلوص قومی میں فرق نہ آیا، اس کا ہر قومی عمل اللہ کے لیے تھا، اللہ کے بندوں کے لیے تھا، اس لئے کہ اس کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا۔ ہر مجاہد حق کے دست شمشیر زن پر خدا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ ارشاد خداوندی ہے،یہی قائداعظم کی کامیابی کا راز ہے۔ قائداعظم زندہ باد! پاکستان پائندہ باد۔۔۔! (ماہ نامہ ’’ماہِ نَو‘‘دسمبر 1950ء )

KhUsHi
12-25-2014, 12:02 PM
Buhat achi nd Great sharing

Miss You
12-25-2014, 06:23 PM
JazakAllah
Informative

ayesha
12-25-2014, 07:32 PM
good sharing...

Forum Guru
12-26-2014, 02:21 PM
Walikum As Salam
Bhut Pyari Sharing Hai About Over Leader Qaid Azam Bhut Umde THread Lagya Hai App Nay
Asi Achi Sharing Ka Intizar Reh Ga Bro