PDA

View Full Version : قران پاک کی آیات میں



KhUsHi
12-24-2014, 05:41 PM
بسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ
،بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں ـ اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں ـ اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں ـ اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں ـ اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے ـ اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں ـ کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں " اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :::
کچھ لوگوں کا زعم ء باطل ہے کہ قران کریم میں سے کچھ منسوخ نہیں ہے ، بلکہ جتنی بھی آیات مبارکہ ہیں ان کے احکام جوں کے توں ہیں ، لیکن اگر ہم اس منطق کو درست سمجھیں تو ایک مشکل یہ سامنے آتی ہیں کہ کئی آیات میں مذکور احکام ایک دوسرے کے موافق نہیں ملتے ، اور قران کریم میں کسی قِسم کے اختلاف کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں ، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے
(((((أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا::
:کیا یہ لوگ قران میں غور و فِکر نہیں کرتے اور اگر قران اللہ کے علاوہ کسی اور کے پاس سے ہوتا تو یہ لوگ یقیناً اُس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے ))))) سورت النساء / آیت 82،
یعنی قران پاک میں کہیں کوئی اختلاف نہیں ، یہ ہی حق ہے اور اس پر ہمارا اِیمان ہے ، لیکن جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ کئی مقامات پر ہمیں ایک آیت دوسری کسی آیت کے موافق نہیں لگتی بلکہ اس کے مخالف لگتی ہے ـ
تو ہمارے اذہان میں کچھ پریشانی سے واقع ہوتی ہے ، جب ہم اس پریشانی کا حل تلاش کرتے ہوئے ایسی آیات کی تفسیر کی طرف رجوع کرتے ہیں ، وہ تفیسر جو ہمیں سنت مبارکہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین، تابعین ، تبع تابعین اور اُمت کے أئمہ کرام رحمہم اللہ سے ملتی ہے تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مبارکہ میں کہیں کوئی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہی کہیں کمی یا نُقص ہے ، بلکہ اللہ نے اپنے کچھ احکام نازل فرمانے کے بعد والے احکام کے ذریعے ان پہلے والے احکام کو منسوخ فرمایا ہے ، لیکن اُن کی تلاوت برقرار رکھی ہے ، لہذا وہ اللہ کی کتاب میں حرفاً حرفا ً اسی طرح موجود ہیں جس طرح اللہ نے نازل فرمایا تھا،اورہمیشہ ہمیشہ موجود رہیں گے ،
قران پاک کی آیات میں موجود احکام کے منسوخ کیے جانے کی دلیل بھی ہمیں اللہ کے اسی کلام میں سے ملتی ہے ،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا فرمان پاک ہے
مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ:::
ہم جِس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا اُسے ترک کر دیتے ہیں تو اُس سے زیادہ خیر والی یا اُسی کے جیسی دوسری آیت لاتے ہیں، کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ ہر ایک چیز پر قادر ہےسورت البقرہ /آیت 106،
اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا اِرشاد عالی مقام ہے
وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ آيَةٍۙ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مُفْتَرٍۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ:::
اور جب ہم (اپنی) کسی آیت کو کسی دوسری آیت سے بدل دیتے ہیں ، اور اللہ خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ کیا نازل فرماتا ہے ، تو(اُس تبدیلی کی وجہ سے) کافر کہتے ہیں کہ تم تو اپنی طرف سے جھوٹی(باتیں)بنانے والے ہو ، (جبکہ) حقیقت یہ ہے کہ اُن کی اکثریت علم نہیں رکھتی سورت النحل /آیت 101،
نزول قران کے وقت کفار و مشرکین یہ بات قبول نہ کرتے تھے کہ اللہ کے احکام میں اللہ کی آیات میں کوئی تنسیخ ہو سکتی ہے ، یا کوئی آیت نازل کیے جانے کے بعد تبدیل بھی کی جا سکتی ہے ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو طعنہ دیتے تھے ، اور اس عقیدے کی بنا پر یہودیوں نے """ البدء """ کا فلسفہ بنایا ، اور پھر مسلمانوں میں سے ایک گروہ نے مزید جمع تقسیم کرتے ہوئے وہ فلسفہ اپنے عقائد میں شامل کر لیا ، افسوس اب مسلمان بھی کچھ ایسی باتیں کرتے سنائی دیتے ہیں ، تفصیل ان شاء اللہ حسبء ضرورت و علی الموقع ،
فی الحال اس تمہیدی بیان کے اختتام کی طرف چلتے ہوئے کہتا ہوں کہ ، اسی ناسخ اور منسوخ کی دلیل اللہ پاک کا یہ فرمان مبارک بھی ہےـ
يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ :::
اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اللہ کے پاس ہی اصل بنیادی کتاب ہےـ سورت الرعد /آیت 39،
علوم القران میں سے """ الناسخ و المنسوخ """ ایک نہایت أہم شعبہ ہے ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے اس کی ابتداء ثابت ہے ،
اس علم میں کتب کی تصنیف کا آغاز تابعین رحمہم اللہ کے دور میں ہی ہو گیا تھا ،
سب سے پہلی تصنیف جو ہمارے اس دور تک بھی مطبوعہ میسر ہے ، وہ جلیل القدر تابعی قتادہ بن دعامہ رحمہ ُ اللہ ، جن کا سن پیدائش60 ہجری اور سن وفات 117ہجری ہے ـ
اور اس کے بعد ہمارے اس دور تک اس أہم علم کے بارے میں تصانیف ہو رہی ہیں ، ان معلومات کو مہیا کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ یہ قران پاک میں ناسخ اور منسوخ کسی کا ذاتی فلسفہ یا خام خیالی نہیں ، بلکہ ایک یقینی علم ہے ،
فی الحال اپنی بات یہاں روکتے ہوئے اِس موضوع سے براہ راست متعلق ایک أہم نکتے کا ذکر کرنا انتہائی ضروری سمجھتا ہوں ہے اور وہ یہ کہ تنسیخ یعنی منسوخ کیا جانا صرف احکام میں ہے ، عقائد و اخبار میں نہیں ہوتا ۔
میں نے جان بوجھ کر موضوع کو بہت اختصارکے ساتھ پیش کیا ہے اور موضوع سے متعلق کوئی مباحث ، قواعد ، اور مثالیں ذِکر نہیں کی ہیں ،
تا کہ اگر کسی قاری کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو پہلے وہ ظاہر ہو جائیں ، لیکن خصوصی گذارش ہے کہ اعتراض ، سوال یا اشکال علمی طور پر اپنی علمی دلیل کے ساتھ پیش کیاجائے ، تا کہ جواب دیتے ہوئے ، ہم میں سے کوئی بھی اسلامی اخلاق و حقوق کی حدود سے خارج نہ ہو ،
یہ درخواست خاص طور پر اُیسے لوگوں سے ہے جو اپنی یا کسی اور کی """ خلافء قران""" قران فہمی کے زعم میں اپنے اور اپنے ہم مشربوں کے علاوہ، بلا لحاظ ہر کسی کو غلط ، باطل ، گمراہ ، انا پرست ، جاھل ، مرتد وغیرہ تک بنا دینے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے ،
اللہ مجھے بھی معاف کرے کہ بسا اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے ایسے لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے کچھ سخت الفاظ لکھنا پڑتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق جاننے ، ماننے ، اپنانے اور اسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اللہ کے سامنے حاضر ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

Dr Maqsood Hasni
12-24-2014, 07:08 PM
Allah aap ko behtar jaza de