PDA

View Full Version : خلاء میں کھوج!!



intelligent086
12-22-2014, 10:54 AM
خلاء میں کھوج!!
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x11568_83936500.jpg.pagespeed.ic.Kpw631e8UJ .jpg
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز
خلاء میں قریباً40 کیمیائی مادّے دریافت ہو چکے ،اس لیے اب خلاء کو ’’خلاء‘‘ کہنا بھی غلط لگتا ہے ***** ہم صرف انہی چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں جو روشنی کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ یہ چیزیں یا تو روشنی کی کرنوں کو جذب کر لیتی ہیں یا روشنی ان سے ٹکرا کر و اپس لوٹ جاتی ہے۔ عموماً یہ دونوں عمل بیک وقت اور ایک خاص تناسب میں ہوتے ہیں۔ روشنی بنیادی طور پر سات مختلف رنگوں سے مل کر بنی ہے، جو کہ بنفشی، نیلگو، آسمانی، سبز، زرد، نارنجی اور سُرخ ہیں۔ اس بات کو دو بہت آسان تجربات کی مدد سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایک گول پلیٹ کو سات برابر کے حصوں میں تقسیم کر کے ان پر یہ ساتوں رنگ لگا دیئے جائیں اور پھر اس پلیٹ کو بہت تیزی سے اس کے مرکز پر گھمایا جائے تو پلیٹ پر ان سات رنگوں کی جگہ صرف سفید رنگ نظر آتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ساتوں رنگ ایک دوسرے میں ضم ہو کر سفید رنگ بناتے ہیں۔ اسی بات کو ایک اور تجربے سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اگر روشنی کی کرن کو شیشے کے منشور (پرزم) سے گزارا جائے تو یہ کرن انہی سات رنگوں میں منتشر ہو جاتی ہے۔ اسی عمل کا قدرتی مظاہرہ ہم کو قوسِ قزح میں نظر آتا ہے۔ نیز اسی اصول کی بنیاد پر ہم کو الگ الگ چیزیں الگ الگ رنگت کی نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی چیز زرد اس لئے نظر آتی ہے کیونکہ وہ روشنی کے سبھی رنگ جذب کر لیتی ہے لیکن پیلے رنگ کو واپس لوٹا دیتی ہے، اسی طرح سرخ چیز درحقیقت روشنی کا سرخ رنگ منعکس کر رہی ہے اس لیے سرخ رنگ دکھائی دے رہی ہے۔ جو چیز روشنی کے سبھی رنگ جذب کر لیتی ہیں وہ سیاہ اور جو سب رنگ منعکس کر دیتی ہیں وہ سفید نظر آتی ہیں۔ ہماری قوت ِ بصارت چونکہ محدود ہے اس لیے ہم ایک خاص فاصلے سے دور کے اجسام کو صاف طور پر نہیں۔ فلکی اجسام کا مطالعہ کرنے کے لیے سائنسدانوں نے جب دوربین ایجاد کی تو یہ مسئلہ کسی حد تک حل ہو گیا یعنی ہماری قوتِ بصارت بڑھ گئی اب ہم بہت دور دور تک کی چیزوں کو دیکھنے میں کامیاب ہو گئے…لیکن…ہم صرف انہیں چیزوں کو دیکھ سکتے تھے، جو روشنی خارج یا منعکس کرتی ہیں۔ ہم نے ستاروں کو دیکھ لیا کیونکہ وہ روشنی خارج کرتے ہیں، کچھ سیارے بھی دریافت کر لیے کیونکہ وہ روشنی منعکس کرتے ہیں لیکن ایسے فلکی اجسام جو کہ روشنی کے علاوہ دیگر اقسام کی شعاعیں خارج کرتے تھے، انہیں دیکھنے سے ہم محروم رہے۔ 1887ء میں ہرٹز (Hertz ) نامی سائنسدان نے ریڈیائی لہریں دریافت کیں اور اسی وقت سے ماہرین فلکیات نے ان میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔ خلاء میں موجود سبھی اجسام میں کسی نہ کسی قسم کے طبعی یا کیمیائی عملات ہوتے رہتے ہیں۔ جن کے نتیجے میں ان سے توانائی خارج ہوتی ہے۔ یہ توانائی شعاعوں کی شکل میں خارج ہوتی ہے۔ انہی شعاعوں میں ریڈیائی لہریں بھی ہوتی ہیں۔ روشنی کی طرح یہ بھی زمین پر آتی ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ یہ ہم کو نظر نہیں آتیں۔ ان کو وصول کرنے کے لیے ہم کو اسی قسم کے ایریل ریسیور کی ضرورت ہوتی ہے جیساکہ ریڈیو میں استعمال ہوتا ہے۔ ان ریڈیائی لہروں کو موصول کرنے کے بعد اگر ان کو گراف کی شکل دے دی جائے تو ان لہروں کے مخرج کے بارے میں کافی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں اسی اصول کی بنیاد پر ریڈیائی دوربین و جود میں آئی جس کے ذریعے کیے گئے مشاہدات نے ریڈیائی فلکیات کو جنم دیا۔ ایک عام دوربین میں تو روشنی کی مدد سے دوردراز کی چیزوں کو دیکھا جاتا ہے۔ لیکن ریڈیائی دوربین کسی قسم کے لینز وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی یہ دور بین درحقیقت بڑے بڑے اینٹینا پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ اینٹینا کسی مناسب مقام پر نصب کر دئیے جاتے ہیں۔ وہاں سے ان کو مختلف سمتوں میں گھما کر اس سمت سے آنے والی ریڈیائی لہروں کو وصول کیاجاتا ہے۔ یہ اینٹینا ایک ریسیور سے جڑے ہوتے ہیں۔ ریسیور ایک کمپیوٹر سے منسلک ہوتا ہے جو کہ ان مشاہدات کو ریکارڈ کرتا رہتا ہے۔ خلاء سے آنے والی ریڈیائی لہروں کو سب سے پہلے 1932ء میں کارل جانسکی نے موصول کیا تھا۔ امریکہ کی بیل لیبارٹری میں ایک تجربے کے دوران انہوں نے یہ نوٹ کیا کہ ہماری کہکشاں کی سمت سے ایک مستقل سرسراہٹ موصول ہو رہی ہے یہیں سے تجربات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جن کے نتیجے میں خلا میں کئی ایسے نئے اجسام دریافت کیے گئے جو کہ محض ریڈیو سگنل کی وجہ سے پہچانے گئے۔ ہمارے ملک میں ریڈیائی فلکیات کی شروعات 1961ء میں ہوئی۔ پروفیسر گووند سروپ اور دیگر کئی سائنسدانوں نے جو کہ غیر ممالک میں تحقیقات کر رہے تھے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ اور ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ جیسے اداروں سے اس طرف دھیان دینے کی درخواست کی۔ ڈاکٹر ہومی بھابھا بھی ان لوگوں کے ہم خیال تھے۔ بالآخر 1964ء میں ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈا مینٹل ریسرچ میں ایک گروپ کا قیام عمل میں آیا جس نے اس میدان میں تحقیقات شروع کیں۔ 1963ء میں ہی بمبئی کے نزدیک کلیان کے مقام پر ایک تجرباتی ریڈیائی دور بین قائم کی گئی جس کی مدد سے سورج سے آنے والی ریڈیائی لہروں کا تجزیہ کیا گیا۔ چونکہ ریڈیائی لہروں کی لمبائی کافی زیادہ ہوتی ہے اس لیے ان کو موصول کرنے کے لیے کافی بڑے ریسیور کی ضرورت ہوتی ہے۔ شروع میں یہ ریسیور مخروطی شکل کی ڈش کی مانند بنائے گئے تھے جس کے مرکز میں ایک سلاخ ہوتی ہے۔ یہ ڈش ایلومینیم یا لوہے کی بنائی جاتی ہے۔ ریڈیائی سگنل کو وصول کرکے یہ سلاخ پر مرکوز کر دیتی ہے۔ برطانیہ میں جو ڈریل بینک کے مقام پر لگی ریڈیائی دوربین اسی قسم کی ہے۔ اس ڈِش کا قطر 76 میٹر ہے۔ بعدازاں کیمبرج یونیورسٹی کے کچھ سائنسدانوں نے ڈش کا سائز چھوٹا کرنے کا ایک طریقہ دریافت کر لیا۔ جس میں بجائے ایک بڑی ڈش کے ، چھوٹی چھوٹی کئی ڈشیں لگا دی جاتی ہیں۔ جن کے بیچ ایسا تعلق رکھا جاتا ہے کہ وہ ایک بڑی ڈش کے برابر صلاحیت حاصل کر لیتی ہیں۔ کچھ دیگر اقسام کی ریڈیائی دوربینوں میں ڈش کی جگہ اسٹیل کے فریم استعمال ہوتے ہیں جن پر تار کھنچے رہتے ہیں کلیان کے مقام پر لگائی گئی ریڈیائی دوربین 23 ڈشوں پر مشتمل ہے جس میں سے ہر ایک کا قطر 1.8 میٹر ہے۔ جون 1965ء سے اس نے کام کرنا شروع کر دیا اور ان کی مدد سے سورج کے متعلق کافی معلومات جمع کی جا چکی ہیں۔ اوٹی میں نصب شدہ ریڈیائی دوربین سلنڈرنما اسٹیل کے ڈھانچے پر مشتمل ہے۔ یہ ڈھانچہ 530 میٹر لمبا اور 30 میٹر چوڑا ہے اس عظیم الشان سلنڈر کو برابر کے فاصلوں پر نصب 24 اسٹیل کے کھمبوں پر رکھا گیا ہے۔ اس پورے ڈھانچے کو 110 ڈگری کے زاویے پر بآسانی گھمایا جا سکتا ہے۔ اس کو نصب کرنے کے لیے ایک ایسی مخصوص پہاڑی چُنی گئی ہے جو کہ جنوبی سرے کی طرف سے نیچی اور شمالی حصے کی طرف سے اونچی ہے۔ اس اسٹیل کے ڈھانچے پر 530 میٹر لمبے 1100 اسٹیل کے تار کھینچے ہوئے ہیں جو کہ ریڈیائی لہروں کو موصول کر کے کمپیوٹر تک پہنچاتے ہیں۔ ریڈیائی دور بینوں کی مدد سے ایک اہم ترین فائدہ یہ ہوا ہے کہ ہم خلاء اور خلاء میں موجود اجسام کا کیمیائی تجزیہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ خلاء میں موجود کیمیائی مرکبات یا عناصر اپنی حالت مستقل بدلتے رہتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے دوران ان سے جو شعاعیں خارج ہوتی ہیں، ان میں ریڈیائی لہریں بھی ہوتی ہیں۔ ہر عنصر اور ہر مرکب سے خارج ہونے والی ریڈیائی لہر کی لمبائی الگ الگ ہوتی ہے لہٰذا ان کی لمبائی کی مدد سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ ریڈیائی لہر کس عنصر یا مرکب نے خارج کی ہے۔ 1944ء میں ہینک نامی سائنسدان نے یہ خیال پیش کیا تھا کہ ہائیڈروجن گیس 21.1 سینٹی میٹر کی لمبائی کی لہریں خارج کرے گی۔ 1951ء میں ایون اور پرسیل نے تجربات سے یہ ثابت کر دیا کہ خلاء سے موصول ہونے والی 21 سینٹی میٹر کی ریڈیائی لہریں درحقیقت ہائیڈروجن سے ہی آ رہی ہیں۔ اس دریافت نے کیمسٹری (علم کیمیا) اور فلکیات کے میدان میں تہلکہ مچا دیا۔ ہائیڈروجن وہ پہلا عنصر تھا جو کہ خلاء میں دریافت کیا گیا تھا۔ اس دریافت نے علم کیمیا کی ایک نئی شاخ قائم کر دی جس کو کوسمو کیمسٹری (کائناتی کیمیا) کہا جاتا ہے۔ ہائیڈروجن کی دریافت سے ریڈیائی فلکیات کے ماہرین کے حوصلے بہت بلند ہو گئے اور تحقیقات کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلا جس کے نتیجے میں 1963ء میں ہائیڈروکسِل (OH) ریڈیکل 18 سینٹی میٹر کی ریڈیائی لہر کی شکل میں دریافت ہوا۔ 1968ء میں امونیا، فورم الڈیہائڈ اور 1970ء میں کاربن مونوآکسائیڈ دریافت ہوئی۔ جب سے اب تک خلاء میں 40 سے زیادہ کیمیائی مادّے دریافت ہو چکے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان سب دریافتوں کے بعد خلاء کو ’’خلاء‘‘ کہنا بھی غلط لگتا ہے ان تمام دریافتوں سے کچھ ایسا لگتا ہے کہ ز ندگی کو تشکیل دینے والے مادّے تمام کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس وقت ریڈیائی فلکیات کے ماہرین کی ایک اہم ترین دلچسپی یہی ہے کہ کائنات میں پھیلے ہوئے مرکبات کی مکمل تفصیل معلوم کر کے یہ دیکھاجائے کہ کیا کائنات میں کسی اور جگہ زندگی اور اس کے آثار موجود ہیں کہ نہیں۔ ہمارے ملک میں بھی اس سمت کام ہو رہا ہے۔ اوٹی کے علاوہ اب پونا کے نزدیک ایک اور عظیم الشان ریڈیائی دوربین زیر تکمیل ہے۔ یہ دوربین ڈش ٹائپ کی ہے اور 34 ڈشوں پر مشتمل ہو گی، ان میں سے ہر ڈش کا قطر 45 میٹر ہو گا اور اس کو ہر سمت میں آسانی سے گھمایا جا سکے گا۔ یہ ریڈیائی دوربین دنیا کی سب سے بڑی دوربین ہو گی، جس کی مدد سے مختلف لمبائی کی ریڈیائی لہروں کو وصول کیا جا سکے گا۔ کمپیوٹر اور الیکٹرانکس کے میدان میں ہونے و الی ترقی نے ریڈیائی فلکیات کو مزید سہولتیں فراہم کر دی ہیں۔ ان جدید ٹیکنیکوں کی مدد سے اب 16000 نمونے محض 10 منٹ کے قلیل عرصے میں پوری طرح جانچ لیے جاتے ہیں۔ ریڈیائی فلکیات خلائی تحقیقات سے متعلق ایک ایسا شعبہ ہے جس کو مصنوعی سیّاروں کی بھی ضرورت نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مصنوعی سیّاروں کے بڑھتے ہوئے ٹریفک کے بعد سے ریڈیائی دوربینوں کے کام میں رکاوٹ آ رہی ہے کیونکہ خلاء میں موجود یہ تمام اشیاء ریڈیائی لہروں کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ (سائنس نامہ سے ماخوذ) ٭…٭…٭

UmerAmer
12-22-2014, 03:13 PM
Bohat Khoob

KhUsHi
04-22-2015, 02:54 PM
Thanks for great sharing