PDA

View Full Version : روزا پارکس: جس کے احتجاج نے تاریخ بدل ڈالی!



intelligent086
12-08-2014, 08:42 AM
روزا پارکس: جس کے احتجاج نے تاریخ بدل ڈالی!
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x11409_35492912.jpg.pagespeed.ic.M9yWUGzGWm .jpg
یاسر جواد
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ روزا پارکس کو ’’سِول حقوق کی خاتونِ اوّل‘‘ کہا جاتا ہے۔ دسمبر کی شام کو اُس کا پرعزم انداز میں مدافعت کرنا وہ چنگاری تھی، جس نے 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں احتجاجی مظاہروں کی آگ بھڑکائی۔ اُس کے ایکشن کے نتیجہ میں شہریوں کے خلاف تعصب پر مبنی قوانین ختم ہوئے، مارٹن لوتھر کِنگ جونیئر قومی رہنما بن کر اُبھرا اور نسلی مساوات کے لیے ایک طویل جدوجہد نے دوبارہ زور پکڑ لیا۔ روزا پارکس Tuskegee، الباما میں پیدا ہوئی۔ اُس کا نام روزا مکاؤلی رکھا گیا تھا۔ روزا کا باپ بڑھئی اور ماں ایک کمرے پر مشتمل دیہی سکول میں اُستانی تھی۔ جب پارکس دو سال کی تھی تو والدین علیحدہ ہو گئے اور باپ شمال کی طرف چلا گیا۔ روزا اور اُس کا چھوٹا بھائی ماں کے ہمراہ نانا نانی کے پاس پائن لَیول، الباما منتقل ہو گئے۔ نانا کی وفات کے بعد روزا اور اُس کے گھر والے منٹگمری میں ایک آنٹی کے گھر رہنے لگے۔ روزا نے منٹگمری اِنڈسٹریل سکول میں داخلہ لیا جہاں اُسے کھانا پکانے، کپڑے سینے، ٹوکریاں بنانے اور کشیدہ کاری جیسے فنون کی تربیت دی گئی۔ جونیئر ہائی سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ الباما سٹیٹ ہائی سکول میں داخل ہوئی لیکن اپنی بیمار ماں اور بوڑھی نانی کی دیکھ بھال کرنے کی وجہ سے بار بار اُس کی پڑھائی کا سلسلہ منقطع ہوا۔ 1932ء میں روزا نے ریمنڈ پارکس نامی حجام اور سول حقوق کے کارکن سے شادی کر لی۔ اُس نے انشورنس ایجنٹ کے طور پر اور لوگوں کے کپڑوں کو مرمت کرنے کا کام کیا اور 1934ء میں ہائی سکول ڈپلومہ حاصل کر لیا۔ معاشی بحران کے دور میں افریقی امریکیوں کے لیے ملازمت کے مواقع بہت کم تھے اور مسلسل نسلی بدسلوکی کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ پارکس اپنی خود نوشتہ سوانح عمری میں لکھتی ہے کہ ’’گورے آپ کو گڑبڑ پیدا کرنے کا الزام دیتے حالانکہ آپ بالکل ایک نارمل انسان کی طرح عمل کر رہے ہوتے۔ اس قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا ہونے پر ہر مرتبہ مرنا پڑتا تھا۔‘‘ روزا پارکس نے NAACP میں شمولیت اختیار کی، انجامِ کار 1943ء سے 1956ء تک منٹگمری چیپٹر کی سیکریٹری بنی۔ اُس نے NAACP یوتھ کونسل بھی شروع کی اور منٹگمری ووٹرز لِیگ کی شروع کی ہوئی ووٹر رجسٹریشن مہم میں بھی سرگرم ہو گئی۔ روزا پارکس منٹگمری کے ایک ڈیپارٹمنٹ سٹور پر ڈیوٹی کے بعد گھر واپس آ رہی تھی کہ بس میں اپنی سیٹ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ ڈرائیور نے پولیس کو بلایا۔ اُنہوں نے پارکس کو منٹگمری کے ٹرانسپو رٹیشن قوانین کی خلاف ورزی کے جرم میں قید کر کے جیل بھجوا دیا۔ وہ ایک سو ڈالر کی ضمانت پر رِہا ہوئی اور مقدمے کی سماعت 5 دسمبر بروز سوموار طے پائی۔ چھٹی کے دِن سیاہ فام برادری کے سات ہزار ارکان پارکس کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے جمع ہوئے۔ اس اجتماع کے نتیجے میں ’’منٹگمری امپروومنٹ ایسوسی ایشن‘‘ کا قیام عمل میں آیا اور 26 سالہ مارٹن لوتھر کِنگ جونیئر اِس کا صدر منتخب ہوا۔ کِنگ نے یک روزہ بس بائیکاٹ کی کال دی جسے بعد میں بڑھا دیا گیا کیونکہ پارکس کو مجرم قرار دے کر 10 ڈالر جرمانہ اور 4 ڈالر عدالتی فیس ادا کرنے کی سزا سنائی گئی تھی۔ اُس نے یہ رقم ادا کرنے سے انکار کیا اور منٹگمری سرکٹ کورٹ میں اپیل کر دی۔ ان واقعات کے نتیجہ میں روزا پارکس اور اُس کے شوہر دونوں ہی کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے اور اُنہیں ڈرایا دھمکایا بھی گیا۔ آخر کار 1956ء میں یونائیٹڈ سٹیٹس ڈسٹرکٹ کورٹ نے فیصلہ دیا کہ بسوں میں نسلی امتیاز غیر آئینی تھا۔ سپریم کورٹ نے اِس رُولنگ کو قائم رکھا اور منٹگمری کی بسوں میں یہ امتیاز ختم کرنے کا حکم دیا۔ افریقی امریکیوں نے 381 دن تک احتجاج کیا۔ اس دوران اُن میں سے کوئی بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں سوار نہ ہوا۔ آخر کار بسوں میں سیٹوں کی تخصیص ختم ہو گئی۔ منٹگمری کے پرامن بائیکاٹ نے سول حقوق کی تحریک کو مہمیز دی اور سارے جنوبی امریکہ میں غیر متشدد مہمات کے لیے مثالی نمونہ بن گئی۔ مارٹن لوتھر کِنگ جونیئر نے دیگر مقامات پر بھی دھرنوں اور بائیکاٹس کی قیادت کی۔ وہ منٹگمری والے واقعہ کے بعد قومی سطح پر مشہور ہو گیا تھا۔ روزا پارکس اور اُس کا شوہر منٹگمری میں کام نہ ملنے پر 1957ء میں ڈیٹرائٹ چلے گئے۔ وہاں پارکس نے کپڑے سینے کا کام کیا اور تحریک میں بھی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیتی رہی۔ 1965ء میں وہ John Conyers کی سٹاف اسسٹنٹ بن گئی اور 1988ء میں ریٹائر ہونے تک اُس کے لیے کام کرتی رہی۔ پارکس کو مختلف حوالوں سے احترام ملا۔ NAACP نے اُسے 1979ء میں Spingarn میڈل دیا۔ 1980ء میں وہ مارٹن لوتھر کِنگ جونیئر ’’نان وائلنٹ پِیس پرائز‘‘ حاصل کرنے والی 9ویں فرد اور پہلی عورت بنی۔ اُسی برس "Ebony" میگزین نے ایسی زندہ سیاہ فام خاتون قرار دیا جس نے سِول حقوق کی تحریک کو آگے بڑھانے میں سب سے زیادہ اثر ڈالا تھا۔ اس بات سے چند لوگ ہی اختلاف کریں گے۔ (بحوالہ :دنیا کی 100عظیم عورتیں ) ٭…٭…٭

UmerAmer
12-08-2014, 07:36 PM
Bohat Khoob

KhUsHi
04-21-2015, 05:02 PM
Thanks for great sharing