PDA

View Full Version : ’’عرب عربوں کے لئے ہے‘‘ لارنس آف عریبیہ



intelligent086
11-29-2014, 08:46 AM
ذکی نقوی
آثار قدیمہ ، لسانیات اورفنون لطیفہ کے ماہر، شاعر، ادیب اور جنگجو تھامس ایڈورڈ لارنس نے جدید عرب سلطنتوں کے قیام کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں ***** مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور پچھلی صدی کی نامور شخصیات میں سے شاید ہی کوئی تھامس ایڈورڈ لارنس (لارنس آف عریبیہ) سے زیادہ پراسرار شہرت کا حامل ہو۔ لارنس آف عریبیہ کی حقیقی زندگی سے متعلق عمومی آگہی نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی وجہ ہے کہ لارنس کی شخصیت سے متعلق ڈیوڈ لین کی فلم کے سوا معلومات حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ عوامی سطح پر دستیاب نہیں۔ آثار قدیمہ ، لسانیات اورفنون لطیفہ کا ماہر، شاعر، ادیب اور جنگجو تھامس ایڈورڈ لارنس 16 اگست 1888کو سر تھامس چیپ مین کے ہاں انگلستان میں پیدا ہوا۔ گریجویشن کے بعد آثارِ قدیمہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول کے لئے اسے مصر اور مشرق وسطیٰ میں وقت گزارنا پڑا۔ اپنے تحقیقی مقالے ’’صلیبی جنگوں کے دوران قلعوں کا طرز تعمیر‘‘کے لئے تحقیق کے دوران لارنس نے مسلم تاریخ ، عرب زبان و ادب اور عثمانی اور عرب سلطنتوں کی سیاسیات کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ جنگ عظیم اول کے ابتدائی سالوں میں لارنس کو برطانوی فوج میں کمیشن ملا، سروس کے آغاز میں وہ جنرل آرچی بالڈ مرے کے ہیڈکوارٹر (قاہرہ)میں سٹاف افسر کے طور پر تعینات رہا، بعدازاں اسے ملٹری انٹیلی جنس کے عرب ڈیسک میں بھیج دیا گیا۔ عرب ڈیسک میں اس کی بنیادی ذمہ داری عرب قبائل کی سیاسی و عسکری صورتحال پر نظر رکھنا اور ترکوں کو جزیرہ عرب اور مشرقِ وسطیٰ میں توسیع سے روکنے کے لئے شہزادہ فیصل کو مشاورت فراہم کرنا تھی، لیکن جنگ ختم ہونے تک وسیع النظر اور تاریخ شناس نوجوان لارنس شہرت کی ان بلندیوں تک جا پہنچا جو اس جنگ میں شریک تجربہ کار ، عمر رسیدہ ، جغادری جرنیلوں کو بھی نصیب نہیں ہوئیں۔ کرنیل کے عہدے سے فوج چھوڑ کر سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہونے والا تھامس ایڈورڈ لارنس افکار کی دنیا کا ایسا باسی تھاجو جو متنازعہ ہونے کے باوجود بھی ایک وسیع النظردانشور اورمثالی سپاہی تھا۔ عرب ڈیسک میں کام کے دوران عرب ثقافت، زبان اور سیاست کے گہرے مطالعہ اور صحرا سے فطری لگاو کے بل بوتے پرلارنس نے عربوں میں قوم پرستی کا جذبہ ابھارااور انہیں جزیرہ عرب پر قابض ترکوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا۔ سیاسی سطح پر برطانوی مفادات کو فائدہ پہنچنے کے علاوہ لارنس کے ان اقدامات کی وجہ سے اس کا شمار جدید عرب سلطنتوں کے قیام کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دینے والے محسنوں میں بھی ہونے لگا۔عربوں کی اس حمایت کی وجہ اس کا یہ یقین تھا کہ ’’عرب عربوں کے لئے ہے۔‘‘ 1916میں قاہرہ ہیڈ کوارٹر کی اجازت کے بغیر برطانوی عسکری و مالی معاونت نہ ہونے کے باوجود بحیرہ احمر کی عسکری طور پر اہم ترک بندرگاہ ‘‘عقبہ’’پر قبضہ لارنس کا پہلا بڑا کارنامہ تھا۔ لارنس اپنے خیمہ سے صرف 50 گھڑ سواروں کے ساتھ نکلا تھا اور عقبہ کے راستہ میں آنے والے لالچی سرداروں اور منتشر عرب قبائل کو متحد کرنے کے بعد بندرگاہ پر قابض ہوا۔ قیادت ، دیگر اقوام کی نفسیات سے واقفیت اور ہم آہنگی کے اوصاف کے باعث ہی لارنس اس کم عمری میں عرب خطہ کی تاریخ بدلنے کے قابل ہوا۔قومیت اور عقیدہ سے قطع نظر لارنس اپنے افکار تازہ اور عملیت پسندی کے باعث ہر دور کے نوجوانوں کے لئے ایک مثال ہے۔ عقبہ کی تاریخ ساز فتح کے بعد لارنس نے عرب قبائلیوں پر مشتمل سپاہ ’’عرب لیجن ‘‘ کھڑی کی اور1918ء میں دمشق کی فتح تک مدینہ اور حجاز کے علاقوں میں ترک عسکری قوت کم کرنے کے لئے مسلسل گوریلا کارروائیاں کیں۔عرب لیجن کی مدد سے ترکی کو حجاز سے ملانے والی ریلوے لائن تباہ کرکے لارنس نے ترکوں کی انصرامی (Logistics)امداد کا شیرازہ بکھیر دیا۔گوریلا کارروائیوں کے دوران بارود کے استعمال کی وجہ سے اسے ‘‘شیخ ڈائنامائیٹ ’’ کہا جانے لگا۔ عربوں کے ساتھ مل کر گوریلا کارروائیوں کے زمانے میں’’درآ‘‘کے مقام پر جاسوسی کے ایک مشن کے دوران لارنس ترکوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ گرفتاری کے بعد اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعدازاں مردہ سمجھ کر پھینک دیا گیا جہاںشریف مکہ کے بیٹے نے اس کی جان بچائی۔ اس واقعہ نے لارنس کو بری طرح متاثر کیا،گو کہ وہ ہمیشہ سے متلون مزاج تھا مگر اس واقعہ کے بعد وہ جذباتی عدم توازن کا اس حد تک شکار ہواکہ دمشق کی فتح کے بعداس نے عرب اور انگریز قیادت کے اختلافات کی وجہ سے واپس برطانیہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ جنگ عظیم اول کے اختتام پر لارنس آف عریبیہ نے کرنل کے عہدے سے فوج چھوڑ دی اورکچھ عرصہ گم نامی اختیار کر لی،لیکن تب تک اس کی عسکری کارروائیوں کی بدولت عرب علاقے ترک تسلط سے آزاد ہو چکے تھے اور لارنس آف عریبیہ کا نام تاریخ کا حصہ بن چکا تھا۔ جزیرہ عرب کی آزادی پر لارنس کی مہم جوئی اختتام کو نہیں پہنچی بلکہ اس نے جان ہیوم راس کے نام سے فضائیہ میں سپاہی کے طور پرشمولیت اختیار کرلی۔ڈرگ روڈ(موجودہ فیصل بیس) اور ماڑی پور(موجودہ مسرور بیس) کراچی اور میران شاہ کے فضائی اڈوں پر تعیناتی کے دوران اس نے طیاروں کی ساخت اور ماڈل کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور چند تحقیقی و تخلیقی مقالے لکھے، لیکن فضائی حکام کی نظروں میں آنے کے بعد اسے برخاست کر دیا گیا۔وطن واپسی پر اس نے سرکاری طور پر اپنے دوست جارج برنارڈ شا سے متاثر ہو کر تھامس ایڈورڈ شارکا نام اختیار کیا اور فوجی رسالہ میں سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہو گیا۔1935ء میں فوج چھوڑنے کے صرف 2 ماہ بعد لارنس اپنے موٹر سائیکل سواری کے شوق کے ہاتھوں 19 مئی 1935ء کو وفات پا گیا۔موٹر سائیکل سواروں کے لئے ہیلمٹ پہننے کی تجویزبھی لارنس کے حادثہ کے بعد اس کے معالج کی طرف سے دی گئی، کیوں کہ اس کی موت سر پر چوٹ آنے سے ہوئی تھی۔ لارنس پراسرار سیمابی شخصیت کا حامل تھا اور فوج میں کسی مقام پر بھی موزوں نہیں تھا۔فوجی قواعد اور نظم و ضبط کبھی اس کی طبیعت کو راس نہیں آئے تاہم فنِ حرب اور جنگی تاریخ پر اس کا مطالعہ وسیع تھا۔عرب علاقوں میں اپنے ہتھیار سے شاذ ہی کسی پر گولی چلانے والے تھامس لارنس کی کتاب ’’ سیون پلرز آف وزڈم‘‘گوریلاجنگ کے لئے معتبر حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ہومر کی Iliad کا انگریزی ترجمہ بھی کیا۔ لارنس کی شخصیت مسلم ممالک میں جاسوسی اور عربوں میں قومیت کا شعور بیدار کرنے اور انہیں ترکوں سے لڑانے کی وجہ سے مسلمانوں کے ہاں متنازعہ رہی ہے، لیکن تاریخ پر اس کے اثرات سے انکار ممکن نہیں۔ کرنیل کے عہدے سے فوج چھوڑ کر سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہونے والا تھامس ایڈورڈ لارنس افکار کی دنیا کا ایسا باسی تھاجو متنازعہ ہونے کے باوجود بھی ایک وسیع النظردانشور اورمثالی سپاہی تھا۔

~KAYRA~
11-29-2014, 06:48 PM
;Sleeping:

UmerAmer
11-29-2014, 07:32 PM
Bohat Khoob
Nice Sharing