PDA

View Full Version : آسیب زدہ شہر اور عمارتیں



intelligent086
11-16-2014, 08:32 AM
کیا یہاں واقعی جن، بھوتوں اور چڑیلوںکا ڈیرا ہے؟

قدیم زمانے کا انسان مافوق الفطرت چیزوں اور ہلاکت خیز فطری قوتوں سے خوف زدہ رہتا تھا۔ سائنس نے پرانے زمانے کی بہت سی پُراَسرار سمجھی جانے والی چیزوں کی حقیقت کھول کر رکھ دی۔ قدیم زمانے کا انسان جن قوتوں کو ماورائی مخلوق سمجھ کر خوف کھاتا تھا، آج سائنس کی مہربانی سے ان قوتوں کو اپنے آرام و سکون کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ان میں فطرت کی قوتیں سرِفہرست ہیں۔ بہرحال آج بھی نہ صرف ترقی پذیر اور پس ماندہ ملکوں کے لوگ جن بھوتوں وغیرہ جیسی مافوق الفطرت چیزوں پر یقین رکھتے ہیں بلکہ ترقی یافتہ مغربی ملکوں کے لوگ بھی تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود ان خرافات پر یقین رکھتے ہیں۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ایسے شہر، قصبے، عمارتیں اور دوسری چیزیں موجود ہیں جنہیں آسیب زدہ قرار دیا جا چکا ہے۔ انسان کی اوہام پسندی کی تفصیل جاننے کے لیے آج ہم دنیا بھر کے آسیب زدہ شہروں، عمارتوں اور دوسری چیزوں کے بارے میں آپ کو بتا رہے ہیں۔ بوما سرائے یہ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں واقع ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک بھوت کو اس سرائے کی راہ داریوں میں گھومتے دیکھا ہے۔ وہ بھوت اس باورچی کو تلاش کرتا ہے جس نے اسے زہر دیا تھا۔ جس رات بھوت بننے والا شخص ہلاک ہوا، مذکورہ باورچی نے اسی رات اپنے آپ کو خنجر گھونپ کر خودکشی کر لی تھی۔ شاؤنی نمبر 81 یہ ایک متروک محل ہے جو بیجنگ کے ایک محلے چاؤیانگ مین میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کومن تانگ کے ایک افسر کی محبوبہ کا بھوت اس محل میں گھومتا پھرتا ہے۔ اسے وہ افسر 1949ء میں تائیوان فرار ہوتے وقت یہیں چھوڑ گیا تھا۔ 2014ء میں بنائی جانے والی چینی زبان کی فلم ’’لافانی مکان‘‘ اسی آسیب زدہ محل میں فلمائی گئی تھی۔ شہرِ ممنوعہ یہ بیجنگ کے وسط میں واقع ہے۔ پیلیس میوزیم اسی شہرِ ممنوعہ میں ہے۔ یہاں کام کرنے والے لوگوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے قدیم بادشاہوں کی خدمت پر مامور خواجہ سراؤں کے بھوتوں کی ایک ٹولی کو یہاں گھومتے پھرتے دیکھا ہے۔ دیوارِ چین مقامی سیاحوں اور دیوارِ چین پر مختلف کاموں کے لیے مامور ملازموں نے بتایا ہے کہ انہوں نے دیوارِ چین پر فوجیوں کے مارچ کرنے کی آوازیں سنی ہیں اور بھوتوں کو دیکھا ہے۔ دیوارِ چین کے قریبی علاقوں کے بعض لوگ تو بھوتوں سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ اکیلے دیوار کے اوپر نہیں جاتے۔ انہیں یقین ہے کہ اگر وہ اکیلے دیوار کے اوپر جائیں گے تو ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی برا واقعہ پیش آ جائے گا۔ ایک امریکی ٹیلی ویژن چینل کے آسیب زدہ مقامات کے بارے میں سلسلہ وار پروگرام ’’ڈسٹی نیشن ٹروتھ‘‘ کی ٹیم نے ایک رات دیوارِ چین پر بھی گزاری تھی۔ ہوگوانگ ہوئی گوان اوپرا ہاؤس یہ عمارت 1807ء میں غریبوں کے رہنے کے لیے تعمیر کی گئی تھی جسے بعد میں اوپرا ہاؤس میں بدل دیا گیا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس جگہ قدیم دور کا ایک قبرستان ہوتا تھا۔ عمارت اس قبرستان پر تعمیر کی گئی تھی۔ اب اس عمارت میں ایک چھوٹا اوپرا ہاؤس اور ایک عجائب گھر ہے۔ یہاں باقاعدگی سے پروگراموں کا نعقاد کیا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس عمارت کے صحن میں پتھر پھینکا جائے تو ڈانٹنے پھٹکارنے کی آوازیں آتی ہیں لیکن کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ ووکانگ مینشن یہ عمارت پہلی جنگِ عظیم کے دوران تعمیر کی گئی تھی۔ اس کا ڈیزائن ہنگری کے مشہور ماہرِ تعمیر لیڈسلیو ہوڈیک نے بنایا تھا۔ یہ اپارٹمنٹس پر مشتمل رہائشی عمارت ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس عمارت میں سیڑھیوں پر دوڑ کر چڑھنے کی آوازیں، خالی کمروں سے اونچی آوازیں اور شیشہ ٹوٹنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ساتویں منزل کے کونے والے اپارٹمنٹ میں بھوت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جس اداکارہ کا بھوت ہے، وہ اس اپارٹمنٹ میں رہتی تھی۔ اس نے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے نیچے کود کر خودکُشی کر لی تھی۔ چیو مینشن اسے بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں دو بھائیوں نے تعمیر کروایا تھا۔ وہ غریب کسان تھے جو ترقی کر کے کروڑپتی بن گئے تھے۔ وہ پُرتعیش انداز سے زندگی بسر کرتے تھے۔ اس محل کے گرد انہوں نے ایک باغ لگوایا تھا جس میں مور، چیتے اور مگرمچھ پالے گئے تھے۔ دونوں بھائی عین جوانی میں غائب ہو گئے تھے۔ اس وقت سے وہاں کام کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے بھوت دیکھے ہیں۔ اس کے علاوہ ان لوگوںکے جسموں پر عجیب و غریب جانوروں کے کاٹنے کے نشانات بھی پائے گئے ہیں۔ ٹیون مُن روڈ کہا جاتا ہے کہ اس سڑک پر بھوت پھرتے ہیں۔ کئی گاڑیاں حادثوں کا شکار ہوئیں جن میں ڈرائیور ہلاک ہو گئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے اچانک سڑک پر نمودار ہونے والے بھوتوں سے اپنی گاڑیاں ٹکرانے سے بچانے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے حادثے پیش آئے تھے۔ بعض لوگوں نے ٹریفک پولیس کے افسروں کو بتایا کہ انہوں نے اس سڑک پر ڈرائیونگ کے دوران ایسا محسوس کیا جیسے گاڑی ان کے کنٹرول سے نکل گئی ہو اور کوئی غیرمرئی وجود اسے چلا رہا ہو۔ یُن شان فان ڈیان ہوٹل یہ ہوٹل چینگ ڈے میں ہے۔ لوگ کہتے ہیں انہوں نے مغربی لباس میں ملبوس ایک مرد اور قدیم چینی شاہی لباس پہنے ایک عورت کو آٹھویںمنزل پر گھومتے پھرتے دیکھا ہے۔ ان کے علاوہ قدیم چینی لباس میں ملبوس دوسرے بھوتوں کو بھی دیکھا گیا ہے۔ قلعہ بھان گڑھ یہ قلعہ راجستھان کے ضلع اَلوَر کے قصبے بھان گڑھ میں واقع ہے۔ اسے سترہویں صدی میں بادشاہ سوائے مدھو سنگھ کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قلعہ بابا بالاناتھ کی بددعا کے نتیجے میں برباد ہو گیا تھا۔ بابا بالا ناتھ ایک سادھو تھا۔ اس کا حکم تھا کہ کوئی گھر اس کے گھر سے اونچا تعمیر نہ کیا جائے۔ جب ایسا کیا گیا تو اس نے بددعا دی جس کے نتیجے میں قلعہ تباہ ہو گیا۔ مقامی لوگوں کہتے ہیں کہ انہوں نے یہاں بھوت دیکھے ہیں۔ گرینڈ پراڈی ٹاورز یہ عمارت ممبئی میں امیروں کے علاقے میں واقع ہے۔ یہ ممبئی کی سب سے مشہور آسیب زدہ عمارت ہے۔ اس عمارت کو آسیب زدہ سمجھے جانے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بہت سارے لوگ خودکشی کر چکے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں انہوں نے خودکشی کرنے والوں کے بھوت یہاں گھومتے دیکھے ہیں۔ کایا کوئے کایاکوئے کا اصل نام لِوِسّی (Livissi) ہے۔ یہ جنوب مغربی ترکی میں واقع ہے۔ 1922 تک اس قصبے میں اناطولی یونانی آباد تھے۔ یہ شہر اٹھارہویں صدی عیسوی میں آباد کیا گیا تھا۔ جب یہ شہر آباد تھا تو یہاں 20 گرجا اور چیپل موجود تھے۔ ان میں سے بیش تر گرجا آج بھی اس متروک، ویران قصبے میں صحیح سلامت موجود ہیں جب کہ بعض نیم برباد حالت میں موجود ہیں۔ یونانی اور عثمانی مآخذ کے مطابق اس قصبے کی آبادی 6000 نفوس پر مشتمل تھی۔ ترک حکومت نے کایاکوئے کو عجائب گھر (میوزیئم) قرار دے دیا تھا۔ اس وقت قصبے میں پانچ سو گھر ہیں، جو منہدم ہو چکے ہیں۔ ہر سال بہت سے سیاح اس آسیبی قصبے کی سیر کو آتے ہیں۔ اس قصبے میں ایک نجی عجائب گھر بھی ہے جس میں اس کی تاریخ محفوظ کی گئی ہے۔ قصبے کے وسط میں ایک فوارہ ہے جسے سترہویں صدی عیسوی میں بنایا گیا تھا۔ یونیسکو نے کایاکوئے کو ’’عالمی دوستی اور امن بستی‘‘ قرار دے رکھا ہے۔ 9 ستمبر 2014ء کو ترک حکومت نے اس قصبے کو دوبارہ آباد کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ اس منصوبے کے مطابق کایاکوئے کو انچاس سال کے لیے ٹھیکے پر دے دیا جائے گا۔ ٹھیکے پر لینے والی کمپنی یا فرد یہاں تعمیرات کر سکیں گے۔ حکومت کا منصوبہ ہے کہ اس آسیبی قصبے کو ٹھیکے پر لینے والی کمپنی یہاں ایک ہوٹل اور سیاحوں کی دل چسپی کے دوسرے لوازمات کا اہتمام کرے۔ کراکو یہ شہر اٹلی کے صوبے میٹرا میں واقع ہے۔ اسے فطری حوادث کے باعث تباہ ہو جانے پر خالی کیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ قصبہ سیاحوں کی دل چسپی کا مقام بن گیا۔ ورلڈ مونیومینٹس فنڈ نے 2010ء میں اسے اپنی واچ لسٹ میں شامل کیا۔ اس قصبے میں ہالی وڈ کی کئی مشہور فلموں کی فلم بندی کی گئی۔ ان فلموں میں دی پیشن آف کرائسٹ (The Passion of Christ) اور کوانٹم آف سولیس (Quantum of Solace) جیسی فلمیں شامل ہیں۔ بیچ ورتھ پاگل خانہ یہ پاگل خانہ آسٹریلیا کے شہر بیچ ورتھ میں واقع ہے۔ اسے 1867ء میں بنایا گیا تھا۔ 1995ء میں یہ پاگل خانہ بند کر دیا گیا۔ اس میں 1200 پاگلوں کے علاج کی گنجائش تھی۔ اس پاگل خانے کے لیے اس کے ارد گرد ہی 106 ہیکٹر اراضی مختص کی گئی تھی جس میں اگنے والی فصلوں سے اس کے اخراجات پورے کیے جاتے تھے۔ اب اس متروک پاگل خانے کی عمارت اور اراضی لا ٹروب بیچ ورتھ پرائیویٹ لمیٹڈ کی ملکیت ہے اور لا ٹروب یونی ورسٹی اس کا انتظام چلاتی ہے۔ یہاں سیاحوں کو رات کے وقت بھوت دکھانے کے لیے لایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ ا س کے ارد گرد واقع گیارہ باغات صبح سے شام تک عوام کی تفریح کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ یہ باغات انیسویں صدی سے تعلق رکھتے ہیں۔ آؤکی گارا خودکُشی جنگل کوہِ فیوجی کے دامن میں واقع یہ جنگل خوکشی کرنے والوں میں بہت مقبول ہے۔ چوں کہ یہاں بہت زیادہ لوگ خودکشی کر چکے ہیں اس لیے یہ خیال عام ہو گیا ہے کہ یہاں بھوت موجود ہیں۔ امریکہ کے چینل سائی فائی کے آسیب زدہ مقامات کے بارے میں تحقیقی پروگرام ڈسٹی نیشن ٹروتھ کی ایک قسط میں اس جنگل کے بارے میں حقائق پیش کیے گئے تھے۔ اوکی کو کا کنواں ہمیجی کیسل میں واقع اس کنویں کے بارے میں مقامی لوگ کہتے ہیں کہ یہاں اوکی کو کا بھوت دکھائی دیتا ہے۔ اوکی کو کا بھوت رات کے وقت کنویں میں سے نکل کر نو تک گنتی گنتا ہے، چیخیں مارتا ہے اور کنویں میں اتر جاتا ہے۔ اوکی کو جاپان کی ایک مقبول لوک کہانی کا کردار ہے۔ اس کہانی کا عنوان ’’اوکی کو اور نو پلیٹیں‘‘ ہے۔ اوراڈور سر گلین اس قصبے کے 642 باشندوں کو دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمن فوج کی ایک کمپنی نے 10 جون 1944ء کو ہلاک کر دیا تھا۔ ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ جنگ ختم ہونے کے بعد اُس وقت کے فرانسیسی صدر چارلس ڈی گال کے حکم پر اس قصبے کو ازسرِنو آباد کرنے کی بجائے ایک یادگار کے طور پر برباد شدہ حالت ہی میں رہنے دیا گیا۔ بیلشائٹ سپین کا یہ قصبہ 1937ء میں جنرل فرانکو اور سپنیش ری پبلکن آرمی کے فوجیوں کے مابین لڑائی کے دوران برباد ہو گیا تھا۔ خانہ جنگی کے بعداس سے تھڑے فاصلے پر ایک نیا قصبہ آباد کیا گیا جب کہ پرانے قصبے کو برباد شدہ حالت میں یادگار کے طور پر جوں کا توں رہنے دیا گیا۔ اس قصبے میں دو فلمیں The Adventures of Barn Munchausen اور Pan's Labrynth فلمائی گئیں۔ اوکپو لینڈ جنوبی کوریا کے جنوبی سِرے پر واقع اس تھیم پارک میں بیسویں صدی کی دسویں دہائی کے دوران ڈک رولر کوسٹرکے دو ہول ناک حادثے ہوئے جن کے بعد اسے تفریحی سرگرمیوں کے لیے بند کر دیا گیا۔ اب یہاں بھوتوں کا بسیرا ہے۔ صحرائے فرافرا یہ صحرائے اَبیَض کے نام سے بھی معروف ہے۔ سیاحوں اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے فرعون اخناتون کے بھوت کو یہاں چلتے پھرتے دیکھا ہے۔ قدیم روایات کے مطابق اخناتون نے فرعون بننے کے بعد مصر کے دیوتاؤں کی پرستش ترک کر دی تھی۔ اس پر قدیم مصر کے مذہبی پیشواؤں نے اسے بددعا دی کہ مرنے کے بعد اس کی روح صحرا میں بھٹکتی رہے۔ جیزہ کے اہرام یہاں سیاحوں نے بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں کا لباس پہنے ایک شخص کی روح کو منڈلاتے دیکھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ انگریز ماہرِ آثارِ قدیمہ اور ماہرِ مصریات ہوورڈ کارٹر کا بھوت ہے۔ ہوورڈ کارٹر نے فرعون توتنخامون کا مقبرہ دریافت کر کے عالمی شہرت حاصل کی تھی۔ اہرام میں کام کرنے والے کئی ملازمین اور سیاحوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک فرعون کا ہیولا اڑتا ہوا اہرام سے شاہوں کی وادی کی طرف جاتا دیکھا ہے۔ ٭٭٭٭

KhUsHi
09-20-2015, 09:56 AM
بہت اچھی اور گریٹ شیئرنگ کے لیے شکریہ

مزید اچھی شیئرنگ کا انتظار رہے گا

intelligent086
09-24-2015, 01:41 AM
پسندیدگی کا شکریہ

hir
09-24-2015, 03:45 PM
Thanks for sharing

intelligent086
09-25-2015, 12:42 AM
Thanks for sharing



پسندیدگی کا شکریہ