PDA

View Full Version : تیرے میرے سر کی چادر



CaLmInG MeLoDy
11-12-2014, 04:09 PM
راحیلہ اور مناہل کسی بات میں آپس میں الجھی ہوئی تھیں کہ گلے کی کھنکھار پہ خاموش ہو گیئں. اور ایک دوسرے کو انگلیوں کے اشارے سے خاموش ہو جانے کو کہنے لگیں.






کیا ہوا میری لاڈلیوں کو ...کس بات پہ جھگڑا کر رہی ہیں..

کچھ نہیں ابّو بس یہ راحیلہ باجی ہر وقت مجھے ڈانٹتی رہتی ہیں. ان کو سمجھا دیں . جس بات سے میں ان کو منا کر رہی ہوں وہ نہ کیا کریں...

.او ہو تو بیہنوں میں آپس میں ڈانٹ ڈپٹ ہو رہی ہے. اور اس تصادم میں میری لاڈلیاں یہ بھول گیئں کہ بھوک لگی ہوئی ہے ان کے باپ کو.

او ابا جی.. بس ابھی کھانا لگاتے ہیں. یہ کہتے ہوئے مناہل کمرے سے با ہر نکل گئی. اور پیچھے پیچھے راحیلہ نے بھی جانے کے لئے قدم بستر سے نیچے اتارا ...

رکو راحیلہ ....مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے..

ک کک کیا بات کرنی ہے ابا جی....راحیلہ نے تھوڑے خوفزدہ مگر سوالیہ انداز میں ابّا جی کی طرف دیکھا

.بیٹھ جاؤ ..ابا جی نے بستر کے ساتھ رکھی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے راحیلہ کو بیٹھنے کی جگہ جیسے سمجھا دی ہو. راحیلہ بھی خاموشی سے کرسی پہ جا کہ بیٹھ گئی. اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا. کیوں کے یہ انداز ابا جی کا تب ہی ہوا کرتا تھا ..جب انہوں نے کچھ اھم باتیں اپنی لاڈلیوں سے کرنی ہوتی تھیں.

دیکھو راحیلہ . میں تمہید نہیں باندھوونگا، نہ ہی تمہیں سوالوں میں الجھانے کا کوئی ارادہ ہے. ہم تمہارے ماں باپ ہیں، خاموشی سے تم لوگوں کے ساتھ جی رہے ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم لوگوں سے ہم بے دھیان ہیں. تم ہماری اولاد ہو. اس ناتے ہم لوگ تمہارے ہنسنے ، بولنے، اٹھنے بیٹھنے ہر انداز سے اچھے سے واقف ہیں. اور سیدھی سی بات ہے ، آج کل کے دور میں اپنی اولاد پر نظر رکھنا ویسے بھی سب والدین کا فرض بنتا ہے. ہم نے تم لوگوں کو بڑے لاڈ پیار سے پا لا ہے، ضرورت کے لحاظ سے آزادی بھی دی . کہ کل کو تم لوگ ہمیں یہ نہ که سکو کہ تم لوگ زمانے سے پیچھے رہ گئی ہو.

راحیلہ تھوڑی ٹھٹھک گئی. ظاہر ہے اسکو اپنے باپ کی باتوں سے کچھ کچھ اندازہ ہو رہا تھا کے معاملہ کیا چل پڑا ہے.

کیوں ابا جی کیا ہوا.

ہوا کچھ بھی نہیں ہے راحیلہ..مگر ہونا بھی نہیں چاہیے.

اب کے باپ کے بولنے کے انداز میں تھوڑی تلخی تھی. جو راحیلہ کی روح تک اتر گئی..اور وہ باپ کی باتوں کا مطلب بہت آسانی سے سمجھ گئی اور تھوڑی ڈر بھی گئی.. کہ ابھی اس نے گھر کی دہلیز اپنے ماں باپ کی مرضی کے بغیر پھلانگنے کا سوچا ہی تھا کہ اس کے ارادوں کی خبر اس کے والدین کو ہو گئی.

.اسے مناہل پہ غصہ آنے لگا . راحیلہ نے اپنا سر خم کر لیا. اور ابا جی دروازے سے با ہر چلے گئے. راحیلہ نے آسمان کی طرف دیکھنے کے انداز میں اوپر دیکھا اور الله کا شکر ادا کیا کے بال بال بچی..کیوں کے ابھی بھی جاوید کا خط اس کے ہاتھ میں تھا. کہ جس میں اس نے آنے والے وقتوں کے لئے کچھ وعدے اور کچھ قسمیں کھا رکھی تھیں

.--------------------

راحیلہ سنو میں جانتا ہوں
تمہیں ایک دفعہ میرے ساتھ ہی بات کرنے پر سیل فون سے ہمیشہ کے لئے جدا کر دیا گیا تھا. بھول جاؤ اس بات کو. اور یہ لو نیا فون....

نہیں جاوید . یہ میں نہیں لے سکتی. مجھ سے کل ہی ابا جی نے بات کی ہے. میں کیسے انکی بات کو رد کر سکتی ہوں. تم جانتے ہو. جتنی آزادی ابا جی نے ہمیں دے رکھی ہے، اتنا ہی ہم لوگوں نے نا جائز فائدہ اٹھایا ہے اس آزادی کا. مگر اب مجھے شدت سے احساس ہو رہا ہے کے جو کچھ میرے اور تمہارے بیچ چل رہا ہے. وہ سہی نہیں ہے.

کہنے کو ہم صرف ایک آفس میں کام کرنے والے دو لوگ ہیں. مگر ہم نے تو اپنی زندگیاں ہی آپس میں بانٹ لی ہیں. کون ہے ہمارا گواہ ..بولو جاوید...تمہارے کچھ جانے پہچانے دوستوں کے علاوہ اور کوئی دوسرہ انسان ایسا نہیں کے جو ہمارے رشتے سے واقف ہو. اور یوں چپ چھپا کر آفس سے چھٹیاں لے کر آخر کب تک ہم مل سکتے ہیں. میں نہیں جانتی. اب میں نے تم سے اس وقت تک نہیں ملنا جب تک تم میرے والدین سے باقاعدہ مجھ سے شادی کرنے کا نہیں که دیتے..سن رہے ہو نہ..جاوید تم سن رہے ہو نہ.

او ہو راحیلہ .یہ اچانک کیا ہو گیا ہے تمہیں. میں نے کہا نہ ہر برے وقت کے لئے .اور دنیا کا سامنا کرنے کے لئے میں تیار ہوں.تم سب مجھ پر چھوڑ دو.

نہیں جاوید ..تم پر سب کچھ چھوڑتے چھوڑتے آج ٣ سال ہو گئے ہیں. نہ تو تم نے اس مسلہ کا کوئی حل نکالا نہ ہی میرے لئے کوئی عزت دلانے کا فیصلہ کیا ..میں تمہارے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن چکی ہوں. جب چاہتے ہو، جیسے چاہتے ہو..مجھے اپنے روپ میں اپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہو، ..میں بھی تو اپنے ماں باپ کی عزت کے نام پہ چپ ہو گئی ہوں. بولو..کیا سلا ملا مجھے........

.بولو...

تمہارے ساتھ رہ کر آج تک کونسے برے وقت میں میں نے تمہیں اپنے ساتھ پایا..بولو کس کے سامنے تم جواب دہ ہو. ایک بہن ہے میری، جو اس بات کی رازداں ہے، مگر وہ بھی مجھے دیکھ کر حوصلہ پکڑ رہی ہے، میں خود کو اور اس کو کس کس سے اور کب تک چھپا کر رکھ سکتی ہوں. امی میرے روز نے رشتہ مانگنے والوں کو میری زد پہ واپس لوٹا دیتی ہیں، ابو مجھے ہر دوسرے دیں سمجھا بجھا کر مجھ پہ نیا اعتبار کر لیتے ہیں،

راحیلہ نے جاوید سے اپنا ہاتھ چھڑا کر دو کمروں والے فلیٹ سے جاوید سے رخصت لی.

-------------------------------------

-اسلام و علیکم !!! بیٹھیے جاوید بھائی.. مناہل نے جاوید کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خاموشی سے کچن کی طرف چل دی. امی وہ جاوید بھائی آ گئے ہیں. مناہل..........مناہل............راحیلہ کو بلاؤ......... راحیلہ پر تو جیسے کسی نے برف کی سل رکھ دی ہو. اس سے تو اپنی جگا سے ہلا بھی نہیں جا رہا تھا. راحیلہ کی ماں سے انتظار نہیں ہوا ، تو راحیلہ سے بات کرنے کو اسکے کمرے میں ہی چلی گئی.

اب تمہیں کس بات کی شرم رہ گئی ہے، جو سامنے نہیں آ رہی ہو. جاوید سے میں کیا بات کروں. سیدھی طرح چلی آؤ، ورنہ میرا کچھ نقصان نہیں ہے اب. راحیلہ نے اس ہی وقت بستر چھوڑ دیا. اور سیدھی ڈرائنگ روم کی طرف چل دی. تھوڑی دیر کی خاموشی ٹوٹی....

.آنٹی. میں آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہوں. اپنی طرف سے بھی . اور راحیلہ کی طرف سے بھی.

آنٹی کی خاموشی دیکھ کر جاوید پھر سے خاموش ہو گیا. مگر پھر دوبارہ بولنے کی ہمت جتا کر پھر بولا . میں جانتا ہوں زندگی میں آپ کو جو نقصان ہم دونو دے سکتے تھے وہ دے چکے ہیں. مگر میری نیت میں نہ پہلے برائی تھی نہ اب ہے. میں آپ سے راحیلہ کا ہاتھ پہلے بھی مانگ سکتا تھا. مگر میرے اپنے امی ابو اس بات کو راضی نہیں تھے. میں جانتا ہوں آنٹی. اب میرے یہاں آنے سے انکل واپس نہیں آ سکتے. جو عزت آپ لوگوں کی چلی گئی ہماری وجہ سے وہ بھی واپس نہیں مل سکتی. مگر آنٹی میں جانتا ہوں کے ہمارے دین میں اس سے بہتر حل ہم دونو کے لئے اور کچھ نہیں کے آپ راحیلہ کو میرے ساتھ رخصت کر دیں. ہم دنیا میں سرخ رو نہیں ہو سکے. مگر آخرت کا بندوبست ہم نے پہلے ہی چند گواہوں کی موجودگی میں کر لیا تھا.
کیوں بتا تمہیں کیا لگتا ہے، اب اس فیصلے کو تم آرام سے منوا لو گے

...؟ یہ خیال تمہیں اس وقت کیوں نہیں آیا کہ جب کسی کی بیٹی کو تم ان کی آنکھوں کے سامنے سے چوری چھپے اپنی جاگیر سمجھ رہے تھے. یہ خیال میری لاڈلی کو اس وقت نہیں آیا ، کہ جب اپنے باپ کے نام کو تمہارے نام سے بدل رہی تھی.....کن لوگوں کو اپنا گواہ بنا رہے تھے تم لوگ. وہ لوگ کہ جو اب تم دونو کو پہچان نے سے بھی انکار کرتے ہیں..کتنے کچے گواہ تلاشے تھے
تم نے.
میری بیٹی کی روح اس وقت نہیں کانپی کہ جب اس نے اپنے باپ کی چادر اپنے سر سے اتاری ہوگی.

ماں لیا

..چلو ماں لیا کہ تم نے اپنی آخرت کا خیال کر لیا..ہماری اوقات اتنی ہی سمجھی کے ہمیں اس گواہی کے قابل بھی نہیں سمجھا کہ جس کے بعد کم از کم ہم یوں برباد تو نہ ہوئے ہوتے...

کیا کر لیتے ..زیادہ سے زیادہ کیا کر لیتے ہم تم دونو کے ساتھ..مار تو نہ دیتے تم دونو کو..اولاد اپنے ماں باپ کے جسموں کا حصّہ ہوتی ہے..کوئی اپنے ہاتھ سے تب تک اپنے جسم کے حصّے کو کاٹ کے جدا نہیں کرتا کہ جب تک وہ حصّہ اسکے لئے لاعلاج روگ نہ بن جائے. پر تم نے تو ہمارے دل کو روگ لگا دیے..کیا کیسے اور
کس کس کو جواب دوں ..


.لڑکیاں چلی تو ویسے بھی جاتی ہیں اپنے اپنے گھروں کو...........مگر ساتھ میں اپنی..اپنے گھر والوں کی رشتے داروں کی، خاندان کی عزت لے کر جاتی ہیں. اور
بدلہ میں اپنے شوہر کی شان جیت لیتی ہیں.

تم تو جی لو گے جاوید ..پر اگر تم نے ذرا سا حوصلہ کیا ہوتا..تو نہ صرف راحیلہ کے سر سے چادر سرکی ہوتی..اور نہ ہی میرا لباس مجھ سے جدا ہوتا....ہماری نوجوان نسل کیوں اتنی بدگمانی کا شکار ہے کہ ماں باپ کی ضروری سختیاں دیکھ کر انکے دلوں کی نرمی کو بھول جاتے ہیں. کیا راحیلہ نے اپنے باپ کو اپنی ماں کو اعتماد میں لیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا پڑتا اسکو...باپ کو تو نہ کھوتی..عزت کو یوں تار تار تو نہ کرتی. مگر. اب یہ ہماری ویسے بھی نہیں رہی. نام بھی اس نے تمہارا سجا رکھا ہے اپنے ماتھے پہ....اور ہمارے گھر میں جیتی جاگتی لاش کی مانند اپنے کاندھوں پہ اپنے باپ کی موت کا بوجھ لئے پھرتی ہے.

مجھے تو اس کی عزت اسکی زندگی تب بھی پیاری بھی. اب بھی پیاری ہے..تو کیا ہوا جو میرا سہارا کوئی نہیں رہا..مگر میں اس سے اس کا سہارا تو نہیں چین سکتی..میں کیسے اسکو اپنی آنکھوں کے سامنے خون کے گھونٹ پیتی دیکھوں.

-----------------------------------------------

مجھے نہیں پتا شمائلہ ...تم جیسے بھی ہو میری یہ سم کہیں غا یب کر دو. مناحل کو جیسے اب ساری باتیں سمجھ آ رہی تھیں. کے وقتی محبت ، لڑکوں سے ملنا جلنا..تعلقات بڑھانا...اپنے والدین سے چھپ کر اپنی عزت کو لوگوں کے لئے مرکز نگاہ بنانے میں کہیں بھی عزت نہیں ہے. یوں لڑکوں کی آوارہ نظروں ، میٹھے بولوں، نہیں insaaf اور جھوٹے لاڈ پیار کو ماں باپ کے لاڈ پیار سے تولنا کہیں کا ہے...مناہل زور زور سے رونے لگی. پلیز پلیز شمائلہ ہیلپ می ...یہ سم کہیں چھپا دو. کبھی میرے ہاتھ نہ لگے. میں عادی ہو گئی ہوں اپنی تعریفوں کی. محبت کی. دل کے بہلاووں کی. والدین سے چھپے رہ کر آزادی کی زندگی جینے کی..نہیں اور نہیں..مجھے یہ سب پانے کے لئے اپنوں کو نہیں کھونا ہے....

شمائلہ کے بہت سمجھانے پر بھی مناہل نہیں مانی. اور اپنی سم میں سے تمام نمبر ڈیلیٹ کر کے سم بلوک کروا کے اسکو نالے میں بہا دیا. ...اور اپنے گھر کا رخ کیا. ...اپنے ماں کے گلے لگی. . ..

.-----------------------------------------

saba
11-12-2014, 08:44 PM
aik sachi talkh haqeeqat ko bohat khoob bayan kiya hay.kash larkiyan samhj sakain.

duain

singer_zuhaib
11-28-2014, 10:55 PM
Assalam o Alaikum

Aala o Umda or Sabaa Amooz.

par itna kaho ga k Larkio ko jitna parha samjha do par larko ki thori si chikni cheeri or thora sa time dene k bad khud ba khud larkiyaan paseej jati hain unhe vo larke masoom or shareef un nafs lagne lagte hain,bas Nadaan he hoti hai larkitan.

thori si tareef chahe jhooti he kio na ho or thori si tawaja he to chahti hain.