PDA

View Full Version : نرم بستر



CaLmInG MeLoDy
11-12-2014, 04:03 PM
چمکتی دمکتی شفاف پیشانی پر ،پسینے کی نمی تیرتی ہوئی قطرہ بن کر، الجھے بالوں کی ایک لٹ سے جو پیشانی کو چھوتی ہوئی آنکھ کے اوپر سے گزر رہی تھی ، شفاف قطرے کی صورت میں اس لٹ پر سے بہ رہی تھی . اور آئینے کے سامنے بیٹھی خود کو دیکھتی اور سوچ میں مگن بیلا کی سوچ کو یکدم بھٹکا جاتا . آج گرمی تھی بھی بہت ، اور دن بھر کی تنہائی اور بجلی کے آنے جانے کی اٹکیلیوں نے بیلا کو ذہنی طور پر تھکا بھی بہت دیا تھا. اس کو انتظار تھا کے آسمان سے کسی طرف سے کوئی کالی گھٹا آئے اور کچھ پانی برسا جائے، مگر ابھی صرف ہلکی ہلکی ہوا چھلنی شروع ہوئی تھی. جو کمرے کی کھلی کھڑکیوں سے گزرتی ہوئی کمرے کے دروازے سے آر پار ہو رہی تھی، اور کمرے کے باہر رکھی مختلف چیزوں سے ٹکرا رہی تھی. بیلا کو ڈر بھی تھا ، کہ ہوا کے تیز ہو جانے سے یہ چیزیں گر نہ جائیں ، پر پھر بھی اس کی ذہنی تھکاوٹ اس کو آئینے کے سامنے رکھی کرسی پر نیم دراز کے ہوئے تھی.

وہ چاہ کر بھی اٹھ نہیں پا رہی تھی، چیزوں کے گر کر ٹوٹنے کا خوف اسکے خیال کو اسکے بچپن کی طرف لے گیا، جب وہ بھوکی پیاسی گھنٹوں بیٹھی اپنی ماں کا انتظار کیا کرتی تھی. کہ کب ماں آئے گی لوگوں کے گھروں کا کوڑا کرکٹ صاف کر کے ، اور پھر ان کا بچا کھچا کھانہ کسی مومی لفافے میں لٹکا کر ،
بیلا
بیلا
آواز دیتی ہوئی ، میری بچی آؤ کھانا کھا لو، صبح سے بھوکی ہو، اور بیلا بھوک سے پریشان بھاگتی ہوئی ماں کے پاس جانے کی کوشش کر ہی رہی تھی، کہ کمرے میں رکھے مٹی کے مٹکے سے ٹکرا گئی، اور وہ مٹکا زمین پر گر کر ٹوٹ جاتا ہے، یہ دیکھتے ہی کیسے کام سے تھکی ماں جو اس خواہش میں گھر میں داخل ہوئی تھی ، کہ بیلا کو کھانے کے لئے بلا کر اس کو کہوں گی کہ پہلے مجھے ایک گلاس پانی پلا دو، پھر آ کر کھانا کھا لو، اپنی نہ بجھنے والی پیاس کے غصے میں بیلا کے معصوم رخسار پر ایک تھپڑ جڑتی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ تجھے کسی بات کا احساس بھی ہے، اگر سوچتی کہ ماں بھوکی پیاسی تیرے لئے محنت کر کے گھر لوٹی ہے تو پہلے خود ہی پانی کا بندوبست رکھتی، اور یوں لا پرواہی سے بھاگ کر مٹکے کو نہ توڑ دیتی، جس کو ماں صبح گھر سے نکلنے سے پہلے گلی کے آخری کونے پر لگے نلکے سے بھر لاتی تھی، کہ دن بھر کے کام سے تھک کے جب گرمی میں لوٹے گی تو یہ مٹکے کا پانی اس کو ٹھنڈک کا احساس دے گا.

اپنے بچپن کو سوچ سوچ بیلا کرسی پر نیم دراز ایسے اپنا رخ بدلتی ہے جیسے ، بے آرام بستر پر کروٹ بدلتی ہو، پھر ایک کروٹ پر اسکو بچپن کے اس بستر کا خیال آیا جو کبھی ٹوٹی پرانی مونجھ کی بنی ہوئی ڈھیلی ڈھالی چارپائی پر اس کی ماں اس کے لئے بچھا دیتی تھی، جس پر اس کے پاؤں پھیل کر پورے بھی نہ آتے تھے، یا کبھی کروٹ بدلنے کو جی چاہتا تو یہ خیال اس کو کروٹ بدلنے نہ دیتا کہ ماں کی تھکاوٹ کی نیند بیلا کی وجہ سے خراب نہ ہو، اور وہ گھٹی گھٹی اپنے سانس کو ہلکا لیتی پتا نہیں کب کس وقت سو جاتی تھی.

سانس بھر کر بیلا نے خود کو کرسی پر کچھ ایسے ذرا سا اٹھا لیا ، جیسے سامنے رکھی کسی میز پر وہ ابھی قلم کاغذ اٹھا کے لکھنے لگ جائے گی، مگر لکھنا کہاں ، آج تو اسکو صرف سوچنا تھا، جیسے آج نہیں سوچے گی، تو کبھی کوئی خیال اسکو آے گا ہی نہ ، وہ تھوڑی اور جھک گئی، جیسے کوئی بوڑھا انسان اپنے ناتواں کاندھوں کو جھکا کر ذرا سانس لیتا ہے، اور اٹھنے کی ہمت اکھٹی کرتا ہے، اور پھر ایک دم سے کرسی سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، مگر بیلا وہیں بیٹھی رہی ، اور اپنی ماں کو یاد کرتی رہی جب اسکی ماں ایسے ہی گھر کی ایک زمانے پرانی کرسی پر بیٹھی اپنی زندگی کی آخری کھانسی کھانس رہی تھی.

کام کر کر کے جب بیلا کی ماں کو سردیوں میں ٹھنڈ لگ گئی تھی، تو وہ اپنے میں کمزوری کی وجہ سے سردی کے اثر کو برداشت نہیں کر پائی تھی، اور بہت بیمار ہو گئی تھی، ایسے میں اسکو اپنا کام کاج بھی چھوڑنا پڑا تھا، اور بیلا کو جو پندرہ برس کی ہونے کو تھی، نہ پڑھ پائی تھی،نہ کچھ خاص سیکھ پائی تھی، مگر روپ میں وہ زمانے بھر کی لڑکیوں کی طرح نکھر گئی تھی، اس کے روپ کو چھپانے کی بجاے ماں کو بیلا کو ان لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرنے کو بھیجنا پڑا ، کہ جن کے گھروں کے لڑکے اگر کبھی بیلا کی ماں کو کام کاج دیر سے ختم ہونے کی وجہ سے ، رات کو گھر ڈراپ کرنے آ جاتے ، تو ماں ڈر جاتی کے کہیں ، ان لڑکوں کی نظر اس کی بیلا پر نہ پڑ جائے ، مگر اب اپنی صحت کے ہاتھوں مجبور بیلا کی ماں کے پاس کوئی اور چارہ بھی تو نہ تھا ، کہ بیلا کا اور اپنا گزر بسر کر سکتی، ماں نے بیلا کو ان ہی لوگوں کے رحم و کرم پر کام کاج کرنے کو چھوڑ دیا.




خود بیلا کی ماں گھنٹوں بیٹھی انتظار کرتی کہ کب بیلا بلکل اس ہی عزت کے ساتھ گھر واپس آ جائے ، جس عزت کے ساتھ وہ گھر سے جایا کرتی ہے، مگر بیلا جو شاید وقت اور
حالات کی قیدی ہو گئی تھی، اس کو گھر سے باہر کی رونق اپنی طرف کھینچنے لگی ، مگر ماں کا خیال اس کو واپس اپنی حد پر لے آیا اور پھر وہ خود بھی اپنی حد جان گئی تھی،
اور اپنے آپ کو محفوظ رکھنے لگی تھی.




بیلا

بیلا
ماں کو جب دروازے پر تھوڑی آہٹ ہوئی تو وہ بیلا کو آواز دینے لگی کے شائید بیلا ہے، مگر وہ آہٹ بیلا کی نہیں تھی، بیلا کی ماں کی آواز پڑوسیوں نے بھی سنی، مگر سب اپنی زندگی میں جیسے مگن ہوا کرتے تھے، ویسے ہی مگن رہے، کیوں کے یہ تو روز کی آواز تھی، مگر آج وہ آہٹ بیلا کی ماں کی موت کی آہٹ تھی، بیلا کی ماں کو اپنی طرف بلانے کے لئے ، اس آہٹ کا جواب نہ پا کر بیلا کی ماں ، اپنے اس بستر سے جو جسم کو نوچا کرتا تھا، چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی، لڑکھڑاتے ہوئے ، مگر دروازے تک جانے کی بجاے بیلا کی ماں وہیں زمین پر نیم دراز ہو گئی، وہ زمین پر ایسے گری کے پھر کھبی اٹھ نہ سکی، اسکی زندگی کا چراغ جو آج تک محنت مزدوری، اور فاقوں کے لئے روشن تھا، آج ہمیشہ کے لئے زمین بوس ہو گیا . اور بیلا کی ماں کا انتظار ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا،

بیلا لوٹی مگر آج اسکو آواز دینے کے لئے کوئی نہیں تھا، بیلا کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی، اسکو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے، کہاں جائے . اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، اور پل بھر میں دنیا بھر کے سوالات اس کے ذہن میں گھومنے لگے، اس کا کیا ہوگا، اس کا سہارا کون ہوگا، لوگوں کی ان نظروں کا وہ کیسے مقابلہ کرے گی جن کا ذکر وو اپنی ماں سے اسلئے نہیں کرتی تھی کہ ماں اپنا آرام چھوڑ کر پھر سے کام کو نہ چل دے، مگر اسکی ماں تو دنیا سے ہی چل دی تھی. ماں کے قریب کھڑی وہ زور زور سے رونے لگی، کچھ اڑوس پڑوس کے لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے، اور بیلا کی ماں کی آخری رسومات ادا کرنے کے واسطے ادھر ادھر سے خرچہ پانی جمع کر کے اس کے کفن دفن کا بندوبست کرنے لگے. تمام رسومات پوری ہونے کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے، کوئی کرتا بھی کیا، ویسے بھی کوئی کسی کا کب تک ساتھ دیتا ہے. سب اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوئے.

چند روز بیلا کام کو بھی نہ گئی، کبھی ادھر والے گھر سے ، کبھی ادھر والے گھر سے بیلا کے لئے کھانے پینے کو کچھ نہ کچھ آ جاتا. ایک آدھ محلّہ کی عورت اس کے گھر کا چکر لگا لیتی، زندگی ختم ہو جاتی ہے، مگر زندگی کے کاروبار تو چلتے رہتے ہیں، دس بارہ دن میں لوگ پھر سے اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہو گئے، بیلا کو اب تنہائی ستانے لگی، اور بھوک پیاس بھی کسی انسان کے صبر کی بات نہیں ہوتی، وو اگلے دیں بوسیدہ حال ، پھٹی چادر میں خود کو ڈھانپ کر کام کو چل دی، جن گھروں میں وہ کام کیا کرتی تھی، ان گھروں میں سے کچھ لوگ تو اسکے اب تک منتظر تھے، مگر کچھ لوگ اس کے نا آنے سے بد زن ہو کر نئی کام والی رکھ چکے تھے. بیلا کے لئے یہ سب مشکل تھا، مگر اسکو زندگی تو گزارنی تھی، کام کاج کر کے گھر آ کر کبھی وہ روتی ، کبھی پچھتاتی، کے اپنے باپ کے بے حد اسرار پر بھی اس نے اپنی تعلیم جاری نہ رکھی تھی، اگر اس نے اپنی تعلیم جاری رکھی ہوتی تو آج باپ کے مرنے کے دس سال بعد، اور ماں کے مرنے کے کچھ دن بعد ہی ، وہ اس قابل تو ہوتی کہ کوئی کام کر لیتی، کوئی چھوٹی موٹی نوکری کر لیتی. مگر اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت.

بیلا کو لوگوں کی نظروں شروع سے ہی کھٹکا رہتا تھا. پہلے امیروں کی اس کی غریبی پر نظر اس کو کھٹکتی تھی، پھر ان ہی امیروں کی اسکی لہکتی عمر کی خوبصورتی پر نظر اسکو چبھنے لگی تھی. مرتی کیا نہ کرتی. بیلا سب کی نظروں کو چیرتی ہوئی بارہ برس سے بائیس برس کی ہو گئی تھی. کبھی کسی کی مجال ہوتی بھی اس کی طرف بری نگاہ ڈالنے کی تو وہ چیخ چیخ کر محلے بھر کے لوگوں کو اکھٹا کر لیتی. عزت جو پیاری تھی اسکو. بیلا کی سوچیں اس کو اپنے آپ میں با کردار پا کر خوشی محسوس کر رہی تھیں.


چونک اٹھی بیلا یکدم سے . ایک چھناکے کی آواز نے اس کو سوچوں کے سمندر سے باہر نکال لیا. کچھ گرا اور ٹوٹ گیا. اور بیلا کا دھیان اپنے پرانے وقت سے اوجھل ہو گیا ، وہ تیزی سے کمرے سے باہر بھاگی. یہ دیکھنے کو کہ آج پھر اس کی لا پرواہی سے اس گھر کا قیمتی گلدان تیز ہوا کے جھونکے سے زمین بوس ہو گیا. بیلا کا تو جیسے سکوں ہی درہم برہم ہو گیا. اس کو افسوس ہونے لگا. کے کاش اس نے لا پرواہی نہ کی ہوتی. اور اپنی مالکن کے کہنے پر گھر کی کھڑکیاں دروازے بند کر لئے ہوتے. تو آج یوں اچانک اس کی بے دھیانی میں کب ہوا تیزی ہو گئی، کہ کمرے سے گزرتی ہوئی بالکونی تک جا پونچی اور وہاں رکھے گلدان کو گرا کر چلتی بنی. اور اس خاموشی کو بھی توڑ گئی ، جو اس نے ایک گھنٹے سے قائم رکھی ہوئی تھی. وہ جلدی جلدی کانچ کے ٹکڑے سمیٹنے لگی. اور رونے لگی. کہ پتا نہیں اس کی مالکن اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گی. آج کسی فنکشن میں جانے کے واسطے بیلا کو رات دیر تک گھر کا خیال رکھنے کو گھر میں چھوڑا گیا تھا. اس کو کیا کیا سوالوں کے جواب دینے ہونگے. کہاں تھی. دھیان کدھر تھا. کیا کر رہی تھی. اور نہ جانے ان گنت کتنے سوالات اور کس طرح کے.
ایک مفلس اپنی مفلسی پر پریشان صرف ایک گلدان کی قیمت چکانے کے لئے کتنے سوال اپنے ذہن میں لا کر انکو جھٹک رہی تھی. کیوں کے وہ جانتی تھی کے اس گلدان کی قیمت اسکے مہینے بھر کی کمائی سے بھی زیادہ تھی . نہ جانے اس گلدان کو دنیا کے کس کونے سے مگنوا کر اس گھر کی زینت بنایا گیا تھا. اور اس کے آگے بیلا کی زینت پھیکی پڑ گئی تھی. بیلا کانچ کے ٹکڑوں کو سمیٹتی جا رہی تھی. اور اکیلے گھر کے سنّاٹے سے گھبرائے ہوئے اس انتظار میں تھی کہ کب گھر کے مالک گھر کو واپس آئیں اور وہ اس نقصان کے لئے معافی مانگ سکے. . آج کا دن تو بیلا کے لئے ویسے بھی نہ خوشگوار ہی رہا تھا. گزرے وقت کی یادیں اسکو ایسے ستا رہی تھیں ، جیسے کسی کام کے ہو جانے پڑ انسان کو ملال ہوتا ہے. کانچ کے ٹکڑوں کو بیلا نے اپنے آنچل میں سمیٹ لیا اور پھینکنے کے لئے باسکٹ کی طرف چل دی.


دروازہ کھٹکنے کی آواز نے بیلا کو ڈرا بھی دیا ، اور یہ امید بھی دلا دی کہ شاید گھر کے مالک گھر لوٹ آے ہیں، بیلا نے ڈرتی آواز سے پوچھا کون......


کون ہے بیلا بٹیا
بولو بیلا بٹیا کون ہے، یہ کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی ہے مجھے.
بول بیلا بٹیا تو ڈر تو نہیں رہی.


مگر بیلا کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا. اسکے منہ سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی. یکدم سے سارے گھر میں روشنی پھیل گئی. اور سب جگ مگ ہو گیا. بیلا کا خوف تھوڑا کم ہوا. بجلی آتے ساتھ ہی بیلا میں جیسے حوصلہ پیدا ہوا.


کک کک کچھ نہیں ہوا آپ فکر نہ کریں بابا . بیلا کانچ کو کوڑے میں پھینک کر جلدی سے دروازے کی طرف بھاگی . اور خوف میں دروازہ کھولے بغیر چوکیدار سے مخاطب ہوئی.
بابا ہوا تیز چل رہی تھی. میری آنکھ لگ گئی ذرا دیر کو تو کھڑکی بند نہیں کر سکی. گلدان ٹوٹ گیا.


اچھا اچھا ...ٹھیک ہے. تو اکیلی ہے نہ بٹیا تو میں ڈر گیا کے کوئی مسئلہ تو نہیں. چوکیدار بیلا کو تسلی دے کر اپنی کوٹھری کی طرف روانہ ہو گیا. مگر بیلا پھر سے ایک عجیب سے خوف کا شکار ہو گئی. پرایا گھر، کوئی رکھوالا نہیں، بابا بھی تو انجان انسان ہے، کسی کا کیا بھروسہ ، مگر ہے ہمارا پرانا جاننے والا ، بس ایک اس ہی اعتبار پر بیلا نے اپنی ساری زندگی اکیلے گزار دی کے اور کوئی نہیں تو بابا تو ہے اس کی خیر خواہی کے لئے . بابا بیلا کے باپ کا دوست تھا. بیلا اور اسکی ماں کا حال احوال بابا ہی کبھی کبھار آ کر پوچھ لیا کرتا تھا. اور اپنی ہی وجہ سے بابا نے بیلا کو اس گھر کی نوکری دلائی ہوئی تھی. بیلا کا بھی گزر بسر ہو رہا تھا اس گھر کی تنخواہ پر ، اور بابا کا بھی. ان ہی سوچوں کے ساتھ ہلکے ہلکے قدم بڑھاتی بیلا پھر سے اس ہی کمرے میں داخل ہو گئی، جہاں آئینے کے سامنے بیٹھے وہ اپنا گزرا پل یاد کر رہی تھی. لائٹ آ جانے کی وجہ سے بیلا میں اب تھوڑا حوصلہ پیدا ہو گیا تھا. تو اس نے سوچا کے تھوڑی دیر کو بے خوف ہو کر سویا جائے. رات بھی کافی ہو گئی تھی. اور اس گھر کے مالکان کی آمد کا ابھی تک کوئی نام و نشان نہیں تھا.


بیلا نے خود کو بستر پر ڈھیر کر دیا. اسکے نصیب میں کہاں تھے ایسے نرم گداز بستر، پنکھے کی ہوا اس کے چہرے کو ٹھنڈک کا احساس دے رہی تھی. اور ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے جان میں جان آئی ہو، ایسا اسکی زندگی میں پہلی دفعہ ہوا تھا، کے کسی نے اپنا سارا گھر اسکے ذمے ڈال دیا ہو، اس گھر کی رکھوالی اسکے لئے بوجھ بھی تھی. اور زندگی کو پہلی دفعہ عیاشی سے دیکھنے کا ایک موقع بھی ، بیلا کو فریزر کا خیال آیا، اور پیاس بجھانے کی طلب سے یہ احساس بھی ہوا کے دو گھنٹے سے غائب بجلی نے اس گھر کے فریزر پر کونسا برا اثر چھوڑا ہوگا. ابھی بھی پینے کو ٹھنڈا پانی ہوگا ، صوفے پر بیٹھ کر بیلا نے جی بھر کر پانی پیا. اور گہرا سانس لیا، جیسے اسے آکسیجن نصیب ہو گئی ہو، اپنی ہتھیلی کو اپنے ہونٹوں پر پھیر کر اسنے ٹھنڈے پانی کو صاف کیا. اور دوبارہ سے دم بھرنے کو بستر کی طرف چل دی. بستر پر نیم دراز اسنے ٹیلیویژن آن کر لیا. اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ٹیلیویژن ایسے دیکھنے لگی جیسے اسنے کبھی ٹی وٰ دیکھا ہی نہ ہو. اسکو احساس ہی نہیں ہوا کب اس نرم بستر پر اسکی آنکھ لگ گئی. اور اسکی ساری سوچیں خواب میں چلی گیئں.

Mrs.Qaisar
11-12-2014, 04:13 PM
wah..bht umdah tehreer janab.....bath:

Arosa Hya
11-12-2014, 07:27 PM
awesome piece,,,,,,good effort

intelligent086
11-12-2014, 10:49 PM
خوب صورت تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

singer_zuhaib
11-28-2014, 10:42 PM
Assalam o Alaikum.

Aala o Umda Tehreer.