PDA

View Full Version : اسلام میں اقلیتوںکے حقوق



intelligent086
10-30-2014, 12:02 AM
اسلام میں اقلیتوںکے حقوق
اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے یہ جہاں حقوق اللہ کا درس دیتا ہے وہیں حقوق العباد کا بھی ضامن ہے تاریخ شاہد ہے کہ دین اسلام کے ماننے والوں نے ہمیشہ اقلیتوں کے ساتھ ہر دور میں اچھا سلوک کیا ***** خطبہ حجتہ الوداع انسانی حقوق کیلئے ایسا عالمی منشور ہے جو پہلے کسی نے دیا ، نہ قیامت تک کوئی دے سکتا ہے حضورؐنے فرمایا’’ جو بھی غیر مسلم تمہارے خلاف جنگ کیلئے میدان میں نہ آئے تم اس پر ہتھیار مت اٹھانا‘‘ ***** اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے یہ جہاں حقوق اللہ کا درس دیتا ہے وہیں حقوق العباد کا بھی ضامن ہے۔ حقوق العباد کے معاملے میں یہ اتنا حساس ہے کہ حقوق اللہ تو معاف ہو سکتے ہیں لیکن حقوق العباد اس وقت تک معاف نہیں ہو سکتے جب تک وہ بندہ خود معاف نہ کرے جس کے حقوق تلف کئے گئے۔ حقوق العباد میں یہ صرف اپنے ماننے والوں کے حقوق کا تعین نہیں کرتا بلکہ دیگر مذاہب کو بھی امن و سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔ نبی رحمت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا خطبہ حجتہ الوداع جو انسانی حقوق کے لئے عالمی منشور ہے اور ایک ایسا منشور ہے جو اس سے پہلے نہ کسی نے دیا ہے اور نہ اس کے بعد کوئی دے سکتا ہے۔اسلامی ریاست میں رہنے والے باشندے دو حصوں سے تعلق رکھتے ہیں ایک وہ جو اسلام کے ماننے والے ہیں یہ مسلمان کہلاتے ہیںدوسرے وہ جو اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کو مانتے ہیں جیسے مسیحی، یہود، ہندو، سکھ یہ غیر مذہب کہلاتے ہیں اور ان کو ذمی ّاور اقلیت کہا جاتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دین اسلام کے ماننے والوں نے ہمیشہ اقلیتوں کے ساتھ ہر دور میں اچھا سلوک کیا اور ہمیشہ ان کے حقوق کا خیال رکھا۔فاتح بن کر جب بھی مسلمان کسی ملک میں داخل ہوئے تو انہوں نے نہ صرف ان لوگوں کی عبادت گاہوں کا خیال رکھا بلکہ ان کے گھروں، ان کی جان و مال اور ان کی عزت و آبرو کے تحفظ کو بھی مقدم جانا۔ دین اسلام نے اپنے ماننے والوں پر ابتداء ہی سے یہ واضح کر دیا کہ جو بھی غیر مذہب تمہارے مقابلے پر نہ آئے اور تمہارے خلاف سازشیں نہ کرے تمہارے دشمنوں کا ساتھ نہ دے اور تمہارے ساتھ تمہارے مقرر کردہ قانون کے مطابق امن و آشتی سے رہے تو اس کی عزت و آبرو اور جان و مال کا تحفظ تم پر ایسے ہی ہے جیسا کہ تم پر ایک ادنیٰ سے مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ لازم ہے اگر تم ذرا برابر بھی کوتاہی کرو گے تو خدا کی عدالت میں تمہیں جواب دینا ہو گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ’’ جو بھی غیر مسلم تمہارے خلاف جنگ کے لئے میدان میں نہ آئے تم اس پر ہتھیار مت اٹھانا اور اسی طرح ان لوگوں کی عورتوںبچوں اور بوڑھوں کو بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں‘‘ مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا ’’ان لوگوں کی عبادت گاہوں اور کھیتیوں کو برباد کرنے سے بچانا اور درختوں کو بھی نہ کاٹنا ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ غور طلب بات ہے کہ حالت جنگ میں ہر حریف کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ دوسرے حریف کو نقصان پہنچائے لیکن نبی رحمتؐ نے حالت جنگ میں جو ہدایات صحابہ کرام ؓ کو دیںوہ سب کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور کوئی جرنیل بھی اپنی فوج کو ایسی ہدایات نہیں دیتا جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو دی ہیں۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ ان کی عبادت کے وقت ان پر ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ درست نہیں کہ تم ان کو عبادت میں مصروف پا کر ان پر ہتھیار اٹھا لو میں خدا کا سچا پیغمبرؐ اس سے بھی تم کو منع کرتا ہوں۔سرکار دو عالمؐ کے دور مبارک کے اندر جب نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ 9ہجری میںآپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو نہ صرف نبی اکرم ؐنے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی ان کی خدمت پر مامور فرمایا اور ان کی خاطر تواضع فرمائی۔ سیرت ابن ہشام میں یہاں تک لکھا ہوا ہے کہ جب حضور نبی کریمؐ صحابہؓکے ہمراہ نماز عصر ادا کر چکے تو اس وفد کے سربراہ اور پادری ’’ابو حارثہ علقمہ‘‘ نے اپنی عبادت کی ادائیگی کی اجازت مانگی تو حضورؐنے ان کو اجازت دی اور انہوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے اپنی نماز ادا کی۔ تاریخ آج تک ایسا واقعہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خلیفہ ثانی ، فاروق اعظم ؓ نے اپنے دور خلافت میں ایک بوڑھے یہودی کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو بلا کر اس سے بھیک مانگنے کی وجہ پوچھی؟ اس نے جواب میں کہا کہ اے امیر المومنین ؓ ! اس عمر میں اور کوئی کام تو میں کر سکتا نہیں اور مجھے ہر حال میں اسلامی ریاست کے اصولوں کے مطابق جزیہ دینا ہو گا کیونکہ میں اسلامی ریاست کا باشندہ ہوں اور آپ ؓ کی حکومت میرے بھی حقوق کا تحفظ اسی طرح کرتی ہے جیسے ایک مسلمان فرد کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جزیہ ادا کرنے کے لئے بھیک مانگتا ہوں ۔ آپ ؓ نے جب اس بوڑھے غیر مسلم کے یہ الفاظ سنے تو شوریٰ بلا کر متفقہ فیصلہ فرمایا کہ آج کے بعد کسی بھی بوڑھے غیر مسلم سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور اس کی حفاظت پھر بھی یوں ہی اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے جیسا کہ پہلے تھی۔ علامہ جلال الدین سیوطی ؒ نے تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ جب حضرت عمر فاروق ؓ ، فتح بیت المقدس کے موقع پر مدینہ منورہ سے شام روانہ ہوئے تو راستے میں نماز کا وقت ہو گیا قریب ہی گرجا گھر تھا آپ ؓ اس گرجے کے پادریوں کی خواہش پر تھوڑی دیر کے لئے تشریف وہاں لے گئے اور پھر جلد ہی باہر تشریف لانے لگے۔ گرجے کے مصاحب نے تھوڑی دیر اور بیٹھنے کی خواہش ظاہر کی تو آپؓنے فرمایا کہ نماز کا وقت ہے اور میں نے نماز ادا کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے امیر المومنین ! یہیں نماز ادا فرمالیں تو آپ ؓنے یہ کہہ کر وہاں نماز ادا کرنے سے انکار فرما دیا کہ اگر آج میں نے یہاں نماز ادا کر لی تو بعد میں آنے والا ہر فاتح میرے عمل سے حجت پکڑ کر ہر غیر مسلم کی عبادت گاہ کو مسجد میں تبدیل کر دے گا۔ جبکہ غیر مذہب لوگ اپنی عبادت گاہوں کے علاوہ کہیں اور عبادت نہیں کر سکتے اور مسلمان روئے زمین پر ہر جگہ عبادت کر سکتا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دو رمیں اقلیتوں کے لئے جس طرح کے اصول وضع کئے گئے وہ تاریخ کا لازوال حصہ ہیںان کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔ ان کی عبادت کے اوقات کا خاص خیال رکھا گیا، تجارت کی اجازت دی گئی حتیٰ کہ یہ بھی تاریخ نے محفوظ کیا کہ جہاں مسلم تاجروں کی دکانیں تھیں وہیں پر غیر مذاہب کے لوگوں کا بھی کاروباری سلسلہ تھا۔ جو حقوق مسلمان تاجروں کو حاصل تھے وہی غیر مسلم تاجروں کو بھی حاصل تھے چنانچہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی وفات پر مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی رو رہے تھے کہ ہم ایک مثالی حکمران سے آج محروم ہو گئے۔ فاتح سندھ محمد بن قاسم جب سندھ کی فتح کے بعد واپس جانے لگے تھے تو تاریخ شاہد ہے کہ یہاں کے باشندے ان کی واپسی پر رونے لگے حالانکہ نہ مذہب ایک تھا اور نہ ذات، نہ قومیت ایک تھی اور نہ کوئی پرانے تعلقات تھے۔ پھر کیا وجہ تھی کہ واپسی پر رویا جا رہا تھا؟صرف اور صرف ایک وجہ تھی اور وہ یہ کہ مسلم فاتحین اور حکمرانوں کا حسن سلوک تھا۔ چنانچہ یہاں کے باشندوں نے برملا کہا ہمیں جو سکون اور مساوات محمد بن قاسم کے دور میں میسر آئی وہ ہمیں اپنے حکمرانوں کے دور میں بھی میسر نہ ہو سکی۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ نے ’’الفاروق‘‘ میں یہاں تک لکھا کہ دوران جنگ مسلمانوں کو فوجی کمک کی ضرورت پڑی تو باہمی مشورے سے قریب ہونے کی وجہ سے اس علاقے سے فوج بھیجی گئی جو ذمیوں (اقلیتوں) کے علاقے میں ان کی حفاظت کے لئے تعینات کی گئی تھی۔ جب فوجی دستے وہاں سے روانہ ہونے لگے تو سیدنا عمر فاروقؓ نے ذمیوں کو یہ کہہ کر جزیہ واپس کر دیا کہ ہم جزیہ آپ کی حفاظت کا لیتے ہیں، ہماری فوج یہاں سے چلی گئی اب آپ نے اپنی حفاظت چونکہ خود کرنا ہے لہٰذا ہم جزیہ کے حقدار نہیں۔ یہ ہے مسلمانوں کا تاریخی دور جو انہوں نے سب کو برابری کا کا درجہ دیا اور اقلیتوں کے ساتھ ایسا حسن سلوک والا معاملہ کیا کہ حقوق کے اندر وہ اپنے اور مسلمانوں میں کوئی فرق محسوس نہ کرنے لگے۔ بلا شبہ یہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے جہاں پر ایک طرف یہ بات قابل ستائش ہے کہ پاکستان میں مسیحی برادری عمومی طور پر پرامن اور ملک کی وفادار ہے وہیں پر یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں کہ مسلمانان پاکستان نے مسیحی برادری کے ساتھ ممکنہ حد تک جو تعاون ہو سکا وہ کیا اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ وہ اپنے علاقے کی سطح پر ان کے ہر دکھ درد میں شریک ہوئے اور ان کو اقلیت ہونے کا احساس نہ ہونے دیا خود مسیحی راہنمائوں کے بیانات اس پر شاہدہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پہلو بھی قابل تعریف ہے کہ عالمی سطح پر دین اسلام کے خلاف ہر دور میں اشتعال انگیز لٹریچر شائع ہوا اور معاذ اللہ ثم معاذ اللہ قرآن مجید کو جلانے اور حضور نبی کریم ؐکے خاکے شائع کرنے کی ناپاک اور مذموم جسارت کی گئی لیکن کبھی بھی کسی پاکستانی نے پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں بالخصوص مسیحی برادری سے اپنے تعلقات خراب نہیں کئے۔ نہ ہی کسی گرجے پر پتھر پھینکا اور نہ ہی کسی سطح پر ان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی کہ تمہاری برادری کے لوگ عالمی سطح پر کیا کر رہے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک سزا صرف اس شخص کو دی جائے جو قصور وار یا اس کے معاونین ہوں ۔ قطعاً وہ لوگ سزا کے مستحق نہیں جو بطور خاندان یا مذہب مجرم سے منسلک ہوں اور اہل پاکستان نے ایسا کر دکھایا ہے۔ حتیٰ کہ جب ان اشتعال انگیز ہتھکنڈوں کے خلاف احتجاج کا وقت آیا تو کسی بھی گرجے گھر کے سامنے احتجاج تک نہ کیا۔ کیونکہ مسلمانان پاکستان کے نزدیک مسیحی برادری جو پاکستان میں مقیم ہے ان کی حفاظت ہماری شرعی اور آئینی فرض ہے۔ پشاور میں جو کچھ ہوا پورا ملک اس پر غم میں ڈوبا رہا۔ جب پورے ملک میں اس سانحہ کے خلاف احتجاج کیا گیا تو اس احتجاج میں صرف مسیحی برادری ہی نہیں بلکہ مختلف مذاہب اور مسالک کے لوگ شریک تھے اور ثابت کیا کہ ہم سب پاکستانی ہیں۔پشاور کے سانحہ کے فوراً بعد ہر مکتبہ فکر نے زخمیوں کو ہسپتال لے جانے اور خون کے عطیات دینے میں بنیادی کردار ادا کیا کیونکہ ان کے مذہب نے ان کو یہی درس دیا ہے اور نبی آخری الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی اسوہ حسنہ ہے۔ ٭…٭…٭