PDA

View Full Version : پردہ ، قرآن و حدیث کی روشنی میں



intelligent086
10-25-2014, 10:52 PM
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا.
(الاحزاب، 33 : 59)
اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.
(النور، 24 : 31)
اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ۔
عورت کے لیے ہاتھ پاؤں اور چہرے کے علاوہ سارا جسم ستر ہے، جس کو چھپانا اس پر فرض ہے۔

ابو داؤد کی ایک روایت کے مطابق ایک واقعہ میں ایک عورت ام خلاّد کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہوگیا وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اسوقت بھی وہ اپنے چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے تھیں۔ بعض صحابہ نے حیرت سے دریافت کیا کہ بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر بھی آپ اس اطمینان کے ساتھ باپردہ آئیں تو اُن خاتون نے جواب دیا کہ میں نے بیٹا کھویا ہے اپنی حیاء تو نہیں کھوئی۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ احرام کے لباس میں نقاب کا استعمال ممنوع ہے۔ تاہم ایسی حالت میں بھی محتاط خواتین اپنا چہرہ مردوں کے سامنے کھولنا پسند نہیں کرتیں۔ حضرت عائشہ رضی کہ روایت ہے کہ جمعتہ الوداع کے سفر میں ہم لوگ بحالت احرام مکہ کی طرف جا رہے تھے۔ جب مسافر ہمارے پاس سے گزرتے تو ہم عورتیں اپنے سر سے چادر کھینچ کر اپنا منہ چھپا لیتیں اور جب وہ گزر جاتے تو ہم چہرہ کھول لیتے۔(ابوداؤد

حضرت ام سلمہ رضی اور حضرت میمونہ رضی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں اتنے میں حضرت ابن ام مکتوم رضی آگئے جو نا بینا تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان سے پردہ کرو۔ بیویوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ اندھے نہیں ہیں؟ نہ ہمیں دیکھیں گے نہ ہمیں پہچانیں گے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم انہیں نہیں دیکھتی۔

لیکن سورۃ نور کی آیت کے نزول کے بعد مسلمان عورتوں میں دوپٹہ رائج کیا گیا جس کا مقصد سر، کمر اور سینہ سب اچھی طرح ڈھانک لینا ہے۔ مسلمان خواتین نے قرآن کا یہ حکم سن کر فوراً ہی جس طرح اس کی تعمیل کی اسکی مثال ملنا مشکل ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ فرماتی ہیں کہ سورۃ النور نازل ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان احکامات کو سنکر لوگ اپنے گھروں کی طرف پلٹے اور جا کر اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور بہنوں کو اس کی آیت سنائی۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی کہ جو یہ آیت سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئیں۔ ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپنا کمر پٹہ کھول کر کسی نے چادر اٹھا کر فوراً ڈوپٹہ بنا لیا اور اوڑھ لیا۔
دوسرے روز صبح نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجد نبوی میں آئیں سب دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھیں۔ مزید کہ حضرت عائشہ رضی فرماتی ہیں کہ عورتوں نے اپنے باریک کپڑے چھوڑ کر موٹے کپڑوں کے دوپٹے بنائے۔
( ابن کثیر جلد 3 حصہ 284 ، ابوداؤد کتاب اللباس)

ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مصر کی بنی ململ آئی۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ایک ٹکڑا ایک صحابی کو دیا اور کہا کہ اس کو پھاڑ کر ایک حصہ کا اپنا کرتا بنا لو اور دوسرے حصہ کو اپنی بیوی کو دوپٹہ بنانے کے لئے دیدو اُن سے کہہ دو کہ اسکے نیچے ایک اور کپڑا لگا لیں تاکہ جسم کی ساخت اندر سے ظاہر نہ ہو۔
(ابو داؤد - کتاب اللباس)

اسی طرح سورۃ احزاب کی آیت نمبر 59 جس میں مومن عورتوں کو حکم دیا گیا کہ بڑی چادر کے پلو لٹکا لیا کریں (یا کھونگھٹ جیسا) تاکہ وہ غیر مسلم عورتوں سے علاحدہ شناخت کی جاسکے۔ اس آیت کے سیاق و سباق اور شانِ نزول میں یہ بھی بیان گیا گیا ہے کہ ایام میں جاہلیت میں بد چلن اور پیشہ ور عورتوں کو راہ چلتے لوگ چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے اور جب ظہور اسلام کے بعد عورتیں مسلمان ہوگئیں تو مومن عورتوں کو بھی اسی طرح چھیڑا جاتا تھا۔ جب ان لوگوں سے کہا گیا کہ وہ مومن عورتوں کو نہ ستایا کریں کیونکہ وہ اسلام لاکر داخل اسلام ہوچکی ہیں اور اُن سے کسی بھی گناہ کی توقع نہیں کرنا چاہئے۔
اس پر لوگوں نے کہا کہ ہم کو کیسے پتہ چلے کون عورتیں مومن ہیں اور کون نہیں ہیں۔ چنانچہ اس صورتحال کے پیش نظر اور اسلامی معاشرہ کو تمام برائیوں سے پاک کر کے ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کے مقصد سے پردہ کے تعلق سے قرآنی احکام نازل ہوئے۔ چنانچہ امام رازی رح کہتے ہیں "اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ بد کار عورتیں نہیں ہیں۔ کیونکہ جو عورت اپنا چہرہ چھپائے گی ، حالانکہ چہرہ ستر میں داخل نہیں ہے۔ اس سے کوئی شخص یہ توقع نہیں کرسکتا کہ وہ اپنا ستر غیر کے سامنے کھولنے پر راضی ہوگی۔ اس طرح ہر شخص جان لے گا یہ با پردہ عورتیں ہیں ان سے زنا کی امید نہیں کی جاسکتی"۔
(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 59)

اب پردہ کے اصل مقصد کی روشنی میں نیدرلینڈ کی عدالت کے اعتراض کا جائزہ لیا جائے جس میں عدالت نے یہ کہا کہ مسلم عورتیں اگر حجاب پہنے گی تو وہ دیگر عورتوں سے علاحدہ شناخت تاثر کرے گی اور سماج کے عام دھارے سے الگ تھلگ ہوجائے گی۔

قارئین اکرام یہاں یہ بات محسوس کر سکتے ہیں۔ نیدرلینڈ کی عدالت نے پردہ یا حجاب کو لیکر جس بات کا "خدشہ" ظاہر کیا ہے وہی خدشہ دراصل اسلامی قانون پردہ کا "اصل منشاء" ہے اور ظاہر ہے کہ عریانی پسند معاشرہ کے یہ اقدار اسلامی شریعت سے راست متصادم ہوں گے کیونکہ اسلام ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کا ضامن ہے جبکہ موجودہ معاشرہ جنسی آزادی اور بے راہ روی کے راستہ پر اس نکتہ معدوم کو پار کر گیا ہے جہاں سے اسکی واپسی مشکل نظر آرتی ہے۔

اس طرح فرانس کے وزیراعظم کا یہ اعتراض کہ برقعہ کی وجہ سے عورت کی آزادی میں خلل پڑتا ہے اور وہ برقعہ میں قید ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اسلامی احکام پردہ سے ناواقفیت کی دلیل ہے کیونکہ جیسا مندرجہ بالا مطالعہ میں عرض کیا گیا ہے کہ پردہ دراصل عورت کی حفاظت ناموس اور اسکی عزت و وقار کی برقراری کے لئے لازم قرار دیا گیا۔ یعنی پردہ یا برقعہ ایک طرح کا قلعہ ہے جس میں عورتیں شر پسند عناصر کو بوالہوسی سے محفوظ رہتی ہیں۔ اس طرح یہ کہنا کہ برقعہ عورت کی آزادی میں رکاوٹ ہے یا وہ برقعہ میں قید ہے بلکلیہ نفس مسئلہ سے عدم واقفیت کا مظہر ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ آزادی قید خانہ سے دلائی جاتی ہے۔ آزادی قلعہ سے نہیں دلائی جاتی جہاں عورتیں محفوظ ہیں۔ آزادی کے نام پر عورتوں کو پردہ کے اس قلعہ سے باہر نکالنا ان کی عزت و ناموس کو خطرہ میں ڈالنے کے مترادف ہے اور جس کو کوئی دانشمند اور صالح صاحبِ ایمان کبھی بھی قبول نہیں کر سکتا۔
محمدحبیب صادق

BDunc
10-31-2014, 02:45 PM
MAsha ALlah

UmerAmer
10-31-2014, 08:12 PM
JazakAllah

intelligent086
01-31-2016, 12:34 AM
http://i58.tinypic.com/21jt4lu.jpg
http://www.mobopk.com/images/pasandkarnekabohatbo.png