PDA

View Full Version : پیکرجودوسخا ... حضرت عثمان غنیؓ



intelligent086
10-15-2014, 07:36 AM
پیکرجودوسخا ... حضرت عثمان غنیؓ
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x10829_51782070.jpg.pagespeed.ic.Xn84hApm1h .jpg
مولانا مجیب الرحمٰن انقلابی
آپ ؓکا دور خلافت بے مثال اصلاحات اور رفاعی مہمّات سے عبارت ہے ۔عام آدمی تک رسائی ، ظلم و جور سے نفرت شاہکار کارناموں میں شامل ہے ******** حضرت عثمان غنیؓ ایک مدت تک ’’کتابتِ وحی‘‘ جیسے جلیل القدر منصب پر بھی فائز رہے۔۔۔ نبی کریم ؐکے خطوط بھی لکھا کرتے رات کو بہت تھوڑی دیر کیلئے سوتے اور تقریباً تمام رات نماز وعبادت میں مصروف رہتے ******** خلیفہ سوم ، پیکر جود و سخا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی بار جنت کی بشارت دی اور آپ ؓ کو ’’عشرہ مبشرہ‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی شامل ہونے کی سعادت حاصل ہے۔ آپ ؓ نے خلیفہ اوّل حضرت صدیق اکبر ؓ کی دعوت پر اسلام قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو ’’نورِایمان‘‘ سے منور کیا، طبقات ابن سعد کے مطابق آپؓ اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے نمبر پر ہیں جس کی وجہ سے آپ ؓ ’’السابقون الاوّلون‘‘ کی فہرست میں بھی شامل ہیں، آپ ؓ حافظ قرآن، جامع القرآن اور ناشر القرآن بھی ہیں، ایک موقعہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ جنت میں ہر نبی کا ایک ساتھی او رفیق ہوتا ہے میرا ساتھی جنت میں عثمان ہوگا‘‘۔ امام مسلمؒ اور امام بخاری ؒ نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت کی ہے کہ جب حضرت عثمان غنی ؓ ہمارے پاس آتے تو حضور اکرمؐ اپنا لباس درست فرمالیتے اور فرماتے کہ’’ میں اس (عثمان ) سے کس طرح حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں‘‘ ۔ اسلام کی خاطر دو مرتبہ ہجرت کرنے کی وجہ سے آپؓ کا لقب ’’ذوالہجرتین‘‘ بھی ہے۔ آپؓ کا نام عثمان اور لقب ذوالنورین ہے، آپؓ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضور اکرم ؐ سے ملتا ہے ۔ آپؓ کا تعلق قریش کی سب سے بڑی شاخ ’’بنوامیہ‘‘ سے ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ سفید رنگ ، خوبصورت اور متوازن قدو قامت کے مالک تھے ، گھنی داڑھی اور دراز زلفوں کی وجہ سے جب لباس زیب تن کر کے ’’عمامہ‘‘ سے مزّین ہوتے تو انتہائی خوبصورت معلوم ہوتے ۔اعلیٰ سیرت و کردار کیساتھ ساتھ اپنی ثروت و سخاوت میں مشہور اور ’’شرم وحیا‘‘ کی صفت میں بے مثال تھے۔ شروع ہی سے بڑے پیمانے پر تجارت کی بدولت آپ ؓ کا شمار ’’صاحب ثروت‘‘ افراد میں ہوتا تھا، عمدہ لباس اور لذیذ و نفیس غذاؤں کے عادی تھے لیکن اس سب کے باوجود آپؓ کی طرزِ زندگی سادگی سے عبارت تھی، رہن سہن ، اخلاق واطوار اور کردار میں آپ ؓ کا ہر کام ’’سنت نبویؐ ‘‘سے ہی آراستہ و مزین ہوتا۔ ایک مرتبہ وضوسے فارغ ہوکر مسکرائے ، لوگوں نے مسکراہٹ کی وجہ پوچھی تو آپؓ نے فرمایا کہ میں نے حضور اکرم ؐ کو وضوکے بعد اسی طرح مسکراتے ہوئے دیکھا ہے۔ امامِ ترمذی، ؒ حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’بیعتِ رضوان‘‘ کے موقعہ پر عثمان غنیؓ ، حضور اقدسؐ کی طرف سے ’’سفیر‘‘ بن کر مکہ گئے تھے کہ خبر مشہور ہوگئی کہ حضرت عثمان غنیؓ شہید کر دیئے گئے۔۔۔۔۔ حضور اکرم ؐ نے فرمایا ’’ کون ہے جو عثمان کا بدلہ لینے کیلئے میرے ہاتھ پر بیعت کریگا؟‘‘ اس وقت تقریباً 1400 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت عثمان غنیؓ کے خون کا بدلہ لینے کیلئے نبی کریم ؐ کے ہاتھ مبارک پر ’’موت کی بیعت‘‘ کی ۔اس موقع پر حضور ؐ نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان غنیؓ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ ’’یہ بیعت عثمانؓ کی طرف سے ہے اس کا نام بیعت رضوان اور بیعت شجرہ ہے‘‘۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے’’ بیعت رضوان‘‘ کرنیوالوں کیلئے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان فرمایا ہے۔ جنگ تبوک کے موقع پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ کو اس جنگ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب فرمائی۔۔۔۔۔۔ اس موقع پر صدق و وفاء کے پیکر خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے گھر کا تمام سامان اور مال و اسباب اور خلیفہ دوم عمر فاروقؓ نے نصف مال لاکر ختم المرسلین ؐ کے قدموں میں نچھاور کر دیا ۔ ایک روایت کے مطابق اس موقع پر حضرت عثمان غنیؓ نے ایک ہزار اونٹ ، 70 گھوڑے اور ایک ہزار اشرفیاں جنگ تبوک کیلئے اللہ کی راہ میں دیں، نبی کریم ؐ منبر مبارک سے نیچے تشریف لائے اور حضرت عثمانؓ کی سخاوت سے اس قدر خوش تھے کہ آپ اپنے دست مبارک سے اشرفیوں کو الٹ پلٹ کرتے اور فرماتے ’’ماضرّ عثمان ما عمل بعد ہذا الیوم‘‘ آج کے بعد عثمانؓ کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔۔۔۔۔ حضرت سعید ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورؐ کو دیکھا کہ اوّل شب سے طلوع فجر تک ہاتھ اٹھا کر عثمان غنیؓ کیلئے دُعا کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے!’’ اے اللہ میں عثمانؓ سے راضی ہوں تو بھی راضی ہو جا‘‘۔ ایک روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ ’’ اے عثمان اللہ تعالیٰ نے تیرے تمام گناہ معاف کر دیئے ہیں جو تجھ سے ہوچکے یا قیامت تک ہونگے‘‘۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اقدس ؐکو کبھی اتنا ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ ؐکی بغل مبارک ظاہر ہو جائے مگر عثمانِ غنی ؓ کیلئے جب آپ ؐدعا فرماتے تو بغل مبارک ظاہر ہوجاتی تھی۔ حضرت عثمان غنیؓ ایک مدت تک ’’کتابتِ وحی‘‘ جیسے جلیل القدر منصب پر بھی فائز رہے۔۔۔ اس کے علاوہ حضور ؐکے خطوط وغیرہ بھی لکھا کرتے تھے،حالت یہ تھی کہ رات کو بہت تھوڑی دیر کیلئے سوتے اور تقریباً تمام رات نماز وعبادت میں مصروف رہتے ۔ آپؓ ’’صائم الدہر‘‘ تھے، سوائے ایام ممنوعہ کے کسی دن روزہ کا ناغہ نہ ہوتا تھا، جس روز آپؓ شہید ہوئے اس دن بھی آپؓ روزہ سے تھے، ہر جمعۃ المبارک کو دو غلام آزاد کرتے ۔ ایک مرتبہ شدید قحط پڑا مسلمان پریشان تھے اسی دوران حضرت عثمانؓ کے ایک ہزار اونٹ غلے سے لدے ہوئے آئے تو مدینہ کے تمام تاجر جمع ہوگئے۔۔۔۔۔ تاجروں نے کئی گناہ زائد قیمت پر اس غلے کو خریدنے کی کوشش کی لیکن آپؓ نے فرمایا کہ مجھے اس سے بھی زیادہ نفع ملتا ہے۔۔۔۔ تم سب لوگوں کو گواہ کرتا ہوں کہ میںنے یہ سب غلہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ’’فقراء مدینہ‘‘ کو دیدیا ۔۔۔۔۔ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کر کے تشریف لائے تو آپ ؐاور صحابہ کرام ؓ کو میٹھے پانی کیلئے بڑی دقّت تھی، صرف ایک میٹھے پانی کا کنواں ’’ بیئر رومہ‘‘ تھا جو ایک یہودی کی ملکیت میں تھا، وہ یہودی جس قیمت پر چاہتا مہنگے داموں پانی فروخت کرتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ حضور ؐنے فرمایا ’’ جو شخص اس کنویں کو خرید کر اللہ کے راستے میں وقف کر دے اس کیلئے جنت کی بشارت و خوشخبری ہے ‘‘۔ حضرت عثمان ؓ نے اس کنویں کو خرید کر وقف کر دیا ۔ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ قاتلانہ حملہ میں شدید زخمی ہونے کے بعدجب دنیا سے رخصت ہونے لگے تو صحابہ ؓنے ان سے درخواست کی کہ آپؓ اپنا جانشین و خلیفہ مقرر فرمادیں ۔۔۔ ۔۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے ’’عشرہ مبشرہ‘‘ صحابہ کرام ؓ میں سے چھ نامور شخصیات ، حضرت عثمان غنی ؓ ، حضرت علی المرتضیٰؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت طلحہؓ ، حضرت زبیر ؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ کو نامزد کر کے ’’خلیفہ‘‘ کے انتخاب کا حکم دیا۔۔۔۔۔۔ بالآخر حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے خفیہ رائے شماری کے ذریعے حضرت عثمان غنیؓ کو خلیفہ نامزد کیا۔۔۔۔۔ حضرت عثمان غنیؓ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطبے میں خاص طور پر یہ باتیں ارشاد فرمائیں! اے لوگو! نیک کام کرو، کیونکہ صبح و شام کوچ کرنا ہوگا، دنیا مکروفریب میں لپٹی ہوئی ہے اس کے قریب بھی نہ آؤ، گزری ہوئی باتوں سے عبرت حاصل کرو۔ حضرت عثمان غنیؓ نے 24ھ میں نظام خلافت سنبھالا اور خلیفہ مقر ر ہوئے تو شر وع میں آپؓ نے22لاکھ مربع میل پر حکومت کی۔۔۔۔۔ اس میں سے بیشتر ممالک فتح ہوچکے تھے لیکن ابھی یہاں مسلمان مستحکم نہیں ہوئے تھے اور خطرہ تھا کہ یہ ممالک اور ریاستیں دوبارہ کفر کی آغوش میں نہ چلی جائیں ۔ حضرت عثمان ؓنے فوج کو جدید عسکری انداز میں ترتیب دیا ، آپ ؓ کے دور خلافت میں امیر معاویہؓ نے اسلام کا پہلا بحری بیڑا تیار کر کے ’’بحر اوقیانوس‘‘ میں اسلام کا عظیم لشکر اتار دیا، فرانس ویورپ کے کئی ممالک میں اسلام کے آفاقی نظام کو پہنچا یا ۔۔۔ اسلامی فوجوں نے عثمانی دور میں ہی سندھ مکران ، طبرستان اور کابل سمیت متعدد ایشیائی ممالک فتح کئے ۔ آپ ؓ کے دور خلافت میں ہی اسلامی حکومت سندھ اور کابل سے لیکر یورپ کی سرحد تک پہنچی۔ حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں مملکت اسلامیہ کی حدود بہت وسیع ہوگئی تھیں۔۔۔۔ انتظامی اور رفاعی شعبوں کا اجراء، ہرعلاقے میں سستے انصاف کی عدالتوں کا قیام بھی آپ ؓ کا منفرد کارنامہ ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ تمام صوبوں کے گورنر ، قاضی اور ارکان دولت کی چھان پھٹک کر کے نہایت زیرک اور محنتی حاکم مقرر کرتے ۔آپ ؓ کا طریقہ تھا کہ ہر تین ماہ یا چھ ماہ بعد گورنروں اور عمال حکومت کے نام ہدایات جاری کرتے رہتے ۔۔۔۔۔ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنیؓ نے گورنروں کے نام حکم نامہ جاری کیا جس میں یہ تحریر تھا کہ ! ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے امام یا امیر کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ قوم کا نگران یا چرواہا ہو، اور اللہ نے اس لیے اس کو امیر نہیں بنایا کہ وہ عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے روند ڈالے‘‘ ابن سعد ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان غنیؓ کو اس حالت میں دیکھا کہ دوپہر کے وقت مسجد نبویؐ کے صحن میں کچّی اینٹ کا تکیہ سرکے نیچے رکھے ہوئے آرام فرمارہے ہیں، میں نے گھر جاکر اپنے والد سے دریافت کیا کہ ایسا حسین و جمیل شخص اس حالت میں کون تھا جو مسجد نبویؐ میں لیٹا ہوا تھا۔۔۔ والد نے کہا کہ یہ خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی ؓ ہیں ۔(ابن کثیر جلد 7 ص:213) حضرت عثمان ؓکا دور خلافت بے مثال اصلاحات اور رفاعی مہمّات سے عبارت ہے، سادہ طرز زندگی ، سادہ اطوار ، اعلیٰ اخلاق ، عام آدمی تک رسائی ، ظلم و جور سے نفرت ، آپؓ کے شاہکار کارناموں میں شامل ہے۔آپ ؓ کے پہلے چھ سال فتوحات ،کامیابی و کامرانی کے ایسے عنوان سے عبارت ہیں کہ جن پر اسلام کی پوری تاریخ فخر کرتی رہے گی۔ خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی کو مصر کے بلوائی شہید کرنے کے در پے تھے اور تقریباً ساڑھے سات سو بلوائیوں نے ایک خط کا بہانہ بنا کر ملک میں بد امنی بیدا کر کے مدینہ منورہ پر قبضہ کر لیا۔۔۔۔ اس دوران سیدناحضرت علی المرتضیٰؓ اور دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے باغیوں کا سر کاٹنے کی اجازت چاہی تو آپؓ نے اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ ! مجھ سے یہ نہ ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ ہو اور خود ہی آپؐ کی امت کا خون بہائے۔۔۔۔۔ بلوائیوں نے بغاوت کا ایک ایسا وقت طے کیا کہ جب مدینہ منورہ کے تمام لوگ حج پر گئے ہوں اور صرف چند افراد یہاں ہوں۔۔۔۔۔ تاکہ ایسے وقت میں عثمان غنیؓ کو خلافت سے دستبرار کر واکر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے اسلام کی پر شکوہ ’’قصرِ خلافت‘‘ کو مسمار کیا جائے اور حضور اقدسؐ کے شہر کو آگ و خون میں مبتلا کر کے اسلام کی مرکز یت کو پارہ پارہ کر دیا جائے۔ ایک موقع پر حضور ؐ نے فرمایا تھا کہ’’! اے عثمان! اللہ تعالیٰ تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے، جب منافق اس خلافت کی قمیص کو اتارنے کی کوشش کریں تو اس کو مت اتارنا یہاں تک کہ مجھے آملو (شہید ہو جاؤ) ‘‘۔چنانچہ آخری وقت میں جب باغیوں اور منافقوںنے آپؓ کے گھر کا محاصرہ کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ ! مجھ سے حضور اقدس ؐنے عہد لیا تھا(منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کرینگے تم نہ اتارنا) چنانچہ میں اس عہد پرقائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں، 35ھ ذیقعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے آپ ؓکے گھر کا محاصرہ کیا۔۔۔۔۔ حافظ عماد الدین نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں لکھا ہے کہ باغیوں کی شورش میں حضرت عثمان غنیؓ نے صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑا ۔۔۔۔۔ محاصرے کے دوران چالیس روز تک آپؓ کا کھانا اور پانی باغیوں نے بند کر دیا اور 18ذوالحجہ کو چالیس روز سے بھوکے پیاسے82 سالہ مظلوم مدینہ خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی ؓ کو جمعتہ المبارک کے روز ، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے روزہ کی حالت میں انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ حضرت عثمان غنی ؓ نے12 دن کم 12سال تک 44 لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض خطے پر اسلامی سلطنت قائم کرنے اور نظام خلافت کو چلانے کے بعد جام شہادت نوش کیا ۔ ٭٭٭

UmerAmer
10-15-2014, 08:11 PM
JazakAllah

intelligent086
10-15-2014, 10:22 PM
شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔