PDA

View Full Version : مسئلہ کشمیر: ایک بنگالی آفیسر کی نظر میں



intelligent086
10-08-2014, 08:01 AM
مسئلہ کشمیر: ایک بنگالی آفیسر کی نظر میں (http://www.nawaiwaqt.com.pk/adarate-mazameen/03-Oct-2014/332077)

http://www.nawaiwaqt.com.pk/print_images/290/2014-10-03/news-1412283785-5063.jpg


پوٹھوہاری کی ایک کہاوت ہے :’’ میں اپنے سے طاقتور کو دیکھتا ہوں تو مجھے رحم آجاتا ہے۔ اپنے سے کمزور کو دیکھتا ہوں تو مجھے غصہ آجاتا ہے‘‘۔یہی حال بھارت کا ہے ۔جب وہ چین کو دیکھتا ہے تو اسے رحم آجاتا ہے جب پاکستان یا اردگرد کے دیگر ممالک پر نظر پڑتی ہے تو غصہ سے لال پیلا ہوجاتا ہے۔چین نے تو 1962میں بھارت کو اسکی حیثیت دکھا کر’’ آنیوالی تھاں‘‘ پر کھڑا کردیا تھا حالانکہ اسوقت بھی بھارت کو اپنی طاقت پر بہت گھمنڈ تھا۔ہندچینی جنگ سے پہلے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے رعونت سے بیان دیا تھا :’’ میں نے اپنے کمانڈر انچیف کو حکم دیا ہے کہ چینیوں کو اٹھا کر باہر پھینک دے۔‘‘ لیکن جب مار پڑ گئی تو فرمایا:’’ چینیوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا‘‘۔ اس دن کے بعد سے چین کو دیکھ کر تو گھگی بندھ جاتی ہے لیکن چھوٹے ممالک پر ہمیشہ غصہ ہی آتا ہے۔ بھارت کی یہ فطرت ہے کہ صرف طاقت کی زبان ہی سمجھتا ہے۔ یہ اسکی مزیدخوش قسمتی ہے کہ اُسکے ہمسایوں میں چین کے سوا کوئی ایسا طاقتور ملک نہیں جو اسے سبق سکھا سکے اوربھارت سے کوئی بھی جائز بات منوانے کا اور کوئی حل نہیں۔بھارت 1948سے کشمیر پر بزور طاقت قابض ہے ۔یہ قبضہ قانونی،اخلاقی اور بین الاقوامی قوانین کے لحاظ سے با لکل ناجائز ہے۔کشمیری عوام بھی اس قبضے کیخلاف ہیں۔ بیرونی دنیا نے بھی ہر طرح سے اس ناجائز قبضہ کیخلاف لعن طعن کی ہے لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے ۔
26ستمبرکو وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ایک دفعہ پھر یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے اہم فورم پر جنرل اسمبلی میں اٹھایا ہے۔ بین الاقوامی دنیا اور خصوصاً اقوام متحدہ جیسے معزز ادارے کو یاد دہانی کرائی ہے کہ یہ مسئلہ 1948 سے وہاں فائلوں میں دفن ہے اور اسکا باعزت حل اقوام عالم اور اس معزز ادارے کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان نے حتیٰ الوسع کوشش کی ہے کہ مسئلے کا کوئی با عزت حل نکلے۔ اس مقصد کیلئے دونوں ممالک کے درمیان کئی میٹنگز ہو چکی ہیں لیکن بھارت نے اپنا متکبرانہ انداز نہیں بدلا۔ بھارتی وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کو چھوڑ کر سیلاب متاثرین کے متعلق اور پاک و ہند میں بات چیت کیلئے سازگار ماحول کی بات کی ہے جس کا مسئلہ کشمیر سے کوئی تعلق بھی نہیں۔ پاکستان کا اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر اٹھانے کا بھارت کے اندر بھی سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ جموں میں شیوسینا نے پاکستان کیخلاف سخت مظاہرے کئے ہیں۔پاکستانی ہائی کمیشن کو فوری طور پر بند کرکے پاکستانی ہائی کمشنر کو بھارت سے نکالنے پر زور دیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت ہمارے متعلق کیا سوچتا ہے یاکیا چا ہتاہے ۔ ان حالات میں اگر کوئی پاکستانی لیڈر بھارت سے دوستی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ بچگانہ فیصلہ ہوگا۔اب تک پاکستان کے ہر لیڈر نے بھارت کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی ہے بلکہ بعض اوقات تو اپنے عوام کی ناراضگی کے باوجود بھی حالات کی بہتری کیلئے کو شیشیںکی گئی ہیں لیکن سب فضول‘ سب بے مقصد۔ ان حالات میں ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ پاکستان پچھلے 67 سالوں سے مسئلہ کشمیر ہر جائز طریقے سے حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تین جنگیں بھی لڑ چکے ہیں لیکن اقوام متحدہ سمیت کسی سپر پاور نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس سے کم از کم یہ چیز ضرور واضح ہوجاتی ہے کہ دنیا میں اصول پسندی یاانسانی حقوق کی کوئی وقعت ہے نہ ہی مظلوم کے ساتھ کوئی کھڑا ہوتا ہے۔ آج سے صدیوں پہلے مصر کے فرعون ر عمیسس دوم نے کہا تھا : ’’حکمرانی کرنے کا حق صرف اس شخص کو ہے جس کے بازو میں طاقت اور ہاتھ میں تلوار ہو۔‘‘ یہ اصول آج تک سچ چلا آرہا ہے۔ دنیا لاکھ انسانی حقوق یا اصولوں کی بات کرے مگر فاتح وہی ہوگا جسکے بازو میں طاقت ہوگی۔ فلسطین ہو، کشمیر ہویا بوسینیا سب اپنی اپنی جگہ مظلوم ہیں مگر انکی آواز کوئی سننے کو تیار نہیں ۔یہ مظلوم عوام اگر سو سال بھی موجودہ پوزیشن میں رہیں تو انہیں انصاف نہیں ملے گا ۔انصاف صرف اس دن ملے گا جس دن انکے اپنے بازو طاقتور ہونگے اور ہاتھ میں تلوار ہو گی۔ہمارے قلمکاروں ، تجزیہ نگاروں اور تمام تاریخ دانوں نے بھارت کے ناجائز قبضے،ہٹ دھرمی ،نا انصافی اور عرصہ دراز سے کشمیر میں ظلم و ستم پر بہت کچھ لکھا ہے۔ دلائل سے صفحات کالیکر دیئے ہمارے مقررین نے بھی اقوام متحدہ میں جا کر بہت پر اثر اور پر مغز تقریریں کیں لیکن بھارتی پر نالہ اپنی جگہ قائم ہے۔ آئندہ بھی یہی کچھ ہوگا۔اقوام متحدہ کی معرفت آج تک کسی مظلوم ملک کا مسئلہ حل نہیں ہوا اور نہ ایسا ہونے کی مستقبل میں توقع ہے کیونکہ اقوام متحدہ کی حیثیت سپر پاورز کی لونڈی کی سی ہے۔ وہ وہی کچھ کرتی ہے جو کچھ سپر پاورز چاہتی ہیں۔اب تو بھارت سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ،برطانیہ اور روس سمیت سب پاورز اسکے حق میں ہیں۔ واحد رکاوٹ صرف پاکستان ہے جو شاید ورلڈپریشر کے سامنے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے تو پھر ہمارا کیا حشر ہوگا؟
ویسے یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ بھارت بھلا کشمیر سے کیوں دستبردار ہوگا؟ کشمیر پاکستان کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور بھارت پاکستان کو اپنا دشمن نمبر ون سمجھتا ہے۔بھلا وہ ہماری شہ رگ کیوں چھوڑے گا؟ پاکستان کے تمام اہم دریا کشمیر سے نکلتے ہیں جن کے بغیر ہماری زراعت ناممکن ہوجاتی ہے۔ اب بھارت نے ان دریائوں کے پانیوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ 80 سے زائد ڈیمز بھی بنا لئے ہیں۔ آدھے ہندوستان کی بجلی بھی وہیں سے پیدا ہو رہی ہے ۔پانیوں پر کنٹرول کی وجہ سے پاکستانی زراعت اور پاکستانی معیشت کو مرضی سے تباہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ حال ہی میں سیلاب کا پانی چھوڑکر کیا گیا ہے۔ بھارت کیلئے پاکستان جیسے دشمن سے بدلہ لینے کا اس سے بہتر نسخہ کوئی ہوہی نہیں سکتا ۔کشمیر بھارت کیلئے اس لئے بھی سونے کی کان ہے کیونکہ بھارت ہر سال وہاں سے سیاحوں کے ذریعے اربوں ڈالرز کماتا ہے۔ تیسری بڑی چیز یہاں کی وافرتعداد میں مسلمان لیبر فورس ہے جو بہت سستی اور قابل اعتماد ہے۔ اسکے علاوہ کشمیر بھارتیوں کیلئے بذاتِ خود بھی بہت بڑا تفریحی مقام ہے۔
ان حقائق کے پس منظر میںبات چیت یا اقوام متحدہ کے ذریعے کشمیر حاصل کرنے کی امید رکھنا غیر حقیقی سوچ ہوگی۔ کسی بیرونی طاقت سے امداد کی امید بھی غلط ہوگی۔جنگوں سے بھی ہم یہ مقصد حاصل نہیں کر سکتے تو مجھے اپنے بنگالی دوست مطیع الرحمن کا حل ہی اپیل کرتا ہے۔ مطیع الرحمن سے میری ملاقات 1965 کی جنگ کے بعد ڈھاکہ میں ہوئی ۔یہ انکم ٹیکس گروپ کا ایک نوجوان آفیسر تھا۔ ہماری واقفیت دوستی میں بدل گئی۔مطیع الرحمن 1965کی جنگ سے سخت نالاں تھا۔ اس کی نظر میں ہمارے اس وقت کے وزیر خارجہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے یہ بے مقصد جنگ پاکستان کے سر تھوپ دی تھی جو کہ ایک بہت بڑی سیاسی ناکامی تھی۔ ایک دن اس موضوع پر ہماری بہت بحث ہوئی۔ تنگ آکر ایک دن میں نے پوچھا : ’’کیا ہمیں کشمیر کو بھول جانا چاہیے؟‘‘ میرے دوست نے مضبوط آواز میں جواب دیا : ’’ نہیں قطعاً نہیں مگر کشمیر کی خواہش کرنے سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو اسقدر مضبوط کرنا چاہیے کہ دنیا ہماری بات سنے اور بھارت عمل کرنے پر مجبور ہو۔ خالی بڑھکیں،مذاکرات کا ڈھونگ یا ایسی جنگیں بے وقوفی کے مترادف ہیں‘‘

Ria
10-08-2014, 09:13 AM
By had hatt dharm qoam hai ye... :/

Moona
05-08-2016, 01:10 AM
مسئلہ کشمیر: ایک بنگالی آفیسر کی نظر میں (http://www.nawaiwaqt.com.pk/adarate-mazameen/03-Oct-2014/332077)



http://www.nawaiwaqt.com.pk/print_images/290/2014-10-03/news-1412283785-5063.jpg


پوٹھوہاری کی ایک کہاوت ہے :’’ میں اپنے سے طاقتور کو دیکھتا ہوں تو مجھے رحم آجاتا ہے۔ اپنے سے کمزور کو دیکھتا ہوں تو مجھے غصہ آجاتا ہے‘‘۔یہی حال بھارت کا ہے ۔جب وہ چین کو دیکھتا ہے تو اسے رحم آجاتا ہے جب پاکستان یا اردگرد کے دیگر ممالک پر نظر پڑتی ہے تو غصہ سے لال پیلا ہوجاتا ہے۔چین نے تو 1962میں بھارت کو اسکی حیثیت دکھا کر’’ آنیوالی تھاں‘‘ پر کھڑا کردیا تھا حالانکہ اسوقت بھی بھارت کو اپنی طاقت پر بہت گھمنڈ تھا۔ہندچینی جنگ سے پہلے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے رعونت سے بیان دیا تھا :’’ میں نے اپنے کمانڈر انچیف کو حکم دیا ہے کہ چینیوں کو اٹھا کر باہر پھینک دے۔‘‘ لیکن جب مار پڑ گئی تو فرمایا:’’ چینیوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا‘‘۔ اس دن کے بعد سے چین کو دیکھ کر تو گھگی بندھ جاتی ہے لیکن چھوٹے ممالک پر ہمیشہ غصہ ہی آتا ہے۔ بھارت کی یہ فطرت ہے کہ صرف طاقت کی زبان ہی سمجھتا ہے۔ یہ اسکی مزیدخوش قسمتی ہے کہ اُسکے ہمسایوں میں چین کے سوا کوئی ایسا طاقتور ملک نہیں جو اسے سبق سکھا سکے اوربھارت سے کوئی بھی جائز بات منوانے کا اور کوئی حل نہیں۔بھارت 1948سے کشمیر پر بزور طاقت قابض ہے ۔یہ قبضہ قانونی،اخلاقی اور بین الاقوامی قوانین کے لحاظ سے با لکل ناجائز ہے۔کشمیری عوام بھی اس قبضے کیخلاف ہیں۔ بیرونی دنیا نے بھی ہر طرح سے اس ناجائز قبضہ کیخلاف لعن طعن کی ہے لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے ۔
26ستمبرکو وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ایک دفعہ پھر یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے اہم فورم پر جنرل اسمبلی میں اٹھایا ہے۔ بین الاقوامی دنیا اور خصوصاً اقوام متحدہ جیسے معزز ادارے کو یاد دہانی کرائی ہے کہ یہ مسئلہ 1948 سے وہاں فائلوں میں دفن ہے اور اسکا باعزت حل اقوام عالم اور اس معزز ادارے کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان نے حتیٰ الوسع کوشش کی ہے کہ مسئلے کا کوئی با عزت حل نکلے۔ اس مقصد کیلئے دونوں ممالک کے درمیان کئی میٹنگز ہو چکی ہیں لیکن بھارت نے اپنا متکبرانہ انداز نہیں بدلا۔ بھارتی وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کو چھوڑ کر سیلاب متاثرین کے متعلق اور پاک و ہند میں بات چیت کیلئے سازگار ماحول کی بات کی ہے جس کا مسئلہ کشمیر سے کوئی تعلق بھی نہیں۔ پاکستان کا اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر اٹھانے کا بھارت کے اندر بھی سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ جموں میں شیوسینا نے پاکستان کیخلاف سخت مظاہرے کئے ہیں۔پاکستانی ہائی کمیشن کو فوری طور پر بند کرکے پاکستانی ہائی کمشنر کو بھارت سے نکالنے پر زور دیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت ہمارے متعلق کیا سوچتا ہے یاکیا چا ہتاہے ۔ ان حالات میں اگر کوئی پاکستانی لیڈر بھارت سے دوستی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ بچگانہ فیصلہ ہوگا۔اب تک پاکستان کے ہر لیڈر نے بھارت کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی ہے بلکہ بعض اوقات تو اپنے عوام کی ناراضگی کے باوجود بھی حالات کی بہتری کیلئے کو شیشیںکی گئی ہیں لیکن سب فضول‘ سب بے مقصد۔ ان حالات میں ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ پاکستان پچھلے 67 سالوں سے مسئلہ کشمیر ہر جائز طریقے سے حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تین جنگیں بھی لڑ چکے ہیں لیکن اقوام متحدہ سمیت کسی سپر پاور نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس سے کم از کم یہ چیز ضرور واضح ہوجاتی ہے کہ دنیا میں اصول پسندی یاانسانی حقوق کی کوئی وقعت ہے نہ ہی مظلوم کے ساتھ کوئی کھڑا ہوتا ہے۔ آج سے صدیوں پہلے مصر کے فرعون ر عمیسس دوم نے کہا تھا : ’’حکمرانی کرنے کا حق صرف اس شخص کو ہے جس کے بازو میں طاقت اور ہاتھ میں تلوار ہو۔‘‘ یہ اصول آج تک سچ چلا آرہا ہے۔ دنیا لاکھ انسانی حقوق یا اصولوں کی بات کرے مگر فاتح وہی ہوگا جسکے بازو میں طاقت ہوگی۔ فلسطین ہو، کشمیر ہویا بوسینیا سب اپنی اپنی جگہ مظلوم ہیں مگر انکی آواز کوئی سننے کو تیار نہیں ۔یہ مظلوم عوام اگر سو سال بھی موجودہ پوزیشن میں رہیں تو انہیں انصاف نہیں ملے گا ۔انصاف صرف اس دن ملے گا جس دن انکے اپنے بازو طاقتور ہونگے اور ہاتھ میں تلوار ہو گی۔ہمارے قلمکاروں ، تجزیہ نگاروں اور تمام تاریخ دانوں نے بھارت کے ناجائز قبضے،ہٹ دھرمی ،نا انصافی اور عرصہ دراز سے کشمیر میں ظلم و ستم پر بہت کچھ لکھا ہے۔ دلائل سے صفحات کالیکر دیئے ہمارے مقررین نے بھی اقوام متحدہ میں جا کر بہت پر اثر اور پر مغز تقریریں کیں لیکن بھارتی پر نالہ اپنی جگہ قائم ہے۔ آئندہ بھی یہی کچھ ہوگا۔اقوام متحدہ کی معرفت آج تک کسی مظلوم ملک کا مسئلہ حل نہیں ہوا اور نہ ایسا ہونے کی مستقبل میں توقع ہے کیونکہ اقوام متحدہ کی حیثیت سپر پاورز کی لونڈی کی سی ہے۔ وہ وہی کچھ کرتی ہے جو کچھ سپر پاورز چاہتی ہیں۔اب تو بھارت سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ،برطانیہ اور روس سمیت سب پاورز اسکے حق میں ہیں۔ واحد رکاوٹ صرف پاکستان ہے جو شاید ورلڈپریشر کے سامنے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے تو پھر ہمارا کیا حشر ہوگا؟
ویسے یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ بھارت بھلا کشمیر سے کیوں دستبردار ہوگا؟ کشمیر پاکستان کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور بھارت پاکستان کو اپنا دشمن نمبر ون سمجھتا ہے۔بھلا وہ ہماری شہ رگ کیوں چھوڑے گا؟ پاکستان کے تمام اہم دریا کشمیر سے نکلتے ہیں جن کے بغیر ہماری زراعت ناممکن ہوجاتی ہے۔ اب بھارت نے ان دریائوں کے پانیوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ 80 سے زائد ڈیمز بھی بنا لئے ہیں۔ آدھے ہندوستان کی بجلی بھی وہیں سے پیدا ہو رہی ہے ۔پانیوں پر کنٹرول کی وجہ سے پاکستانی زراعت اور پاکستانی معیشت کو مرضی سے تباہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ حال ہی میں سیلاب کا پانی چھوڑکر کیا گیا ہے۔ بھارت کیلئے پاکستان جیسے دشمن سے بدلہ لینے کا اس سے بہتر نسخہ کوئی ہوہی نہیں سکتا ۔کشمیر بھارت کیلئے اس لئے بھی سونے کی کان ہے کیونکہ بھارت ہر سال وہاں سے سیاحوں کے ذریعے اربوں ڈالرز کماتا ہے۔ تیسری بڑی چیز یہاں کی وافرتعداد میں مسلمان لیبر فورس ہے جو بہت سستی اور قابل اعتماد ہے۔ اسکے علاوہ کشمیر بھارتیوں کیلئے بذاتِ خود بھی بہت بڑا تفریحی مقام ہے۔
ان حقائق کے پس منظر میںبات چیت یا اقوام متحدہ کے ذریعے کشمیر حاصل کرنے کی امید رکھنا غیر حقیقی سوچ ہوگی۔ کسی بیرونی طاقت سے امداد کی امید بھی غلط ہوگی۔جنگوں سے بھی ہم یہ مقصد حاصل نہیں کر سکتے تو مجھے اپنے بنگالی دوست مطیع الرحمن کا حل ہی اپیل کرتا ہے۔ مطیع الرحمن سے میری ملاقات 1965 کی جنگ کے بعد ڈھاکہ میں ہوئی ۔یہ انکم ٹیکس گروپ کا ایک نوجوان آفیسر تھا۔ ہماری واقفیت دوستی میں بدل گئی۔مطیع الرحمن 1965کی جنگ سے سخت نالاں تھا۔ اس کی نظر میں ہمارے اس وقت کے وزیر خارجہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے یہ بے مقصد جنگ پاکستان کے سر تھوپ دی تھی جو کہ ایک بہت بڑی سیاسی ناکامی تھی۔ ایک دن اس موضوع پر ہماری بہت بحث ہوئی۔ تنگ آکر ایک دن میں نے پوچھا : ’’کیا ہمیں کشمیر کو بھول جانا چاہیے؟‘‘ میرے دوست نے مضبوط آواز میں جواب دیا : ’’ نہیں قطعاً نہیں مگر کشمیر کی خواہش کرنے سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو اسقدر مضبوط کرنا چاہیے کہ دنیا ہماری بات سنے اور بھارت عمل کرنے پر مجبور ہو۔ خالی بڑھکیں،مذاکرات کا ڈھونگ یا ایسی جنگیں بے وقوفی کے مترادف ہیں‘‘





intelligent086 Thanks 4 informative sharing :)

intelligent086
05-08-2016, 09:42 AM
@intelligent086 (http://www.urdutehzeb.com/member.php?u=61) Thanks 4 informative sharing :)



Moona
رائے اور پسند کا شکریہ