PDA

View Full Version : عمران خان دھرنوں کے بعد جلسوں کے محاذ پر سر



intelligent086
10-03-2014, 08:41 AM
عمران خان دھرنوں کے بعد جلسوں کے محاذ پر سرگرم

http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x10720_16982715.jpg.pagespeed.ic.XnRq5p9Tjc .jpg


فرخ بصیر
کراچی کے شاندار جلسے کے بعد محض ایک ہفتے کے نوٹس پرصوبائی دارالحکومت میں مینارپاکستان کے سایے تلے ہونے والے جلسے نے جہاںایک بار پھر عمران خان کو مقبولیت کے بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے‘ وہاں اس تصور کو بھی دھچکا لگاہے کہ لاہور مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے ،خاص طور پر اس جلسے میں مزدوروں، ہاریوں اور بکر منڈی کے بیوپاریوں سے لے کر پڑھے لکھے نوجوانوں اور فیملیز کی کثیر تعداد میں شرکت اس حقیقت کی غماز تھی کہ اب عوام اوربالخصوص خاموش ووٹرز نے نہ صرف عمران خان کی تقاریر پرکان دھرنے شروع کر دیے ہیں بلکہ انہیں وہ ایک ایسی طلسماتی شخصیت معلوم ہونے لگے ہیں جن کے پاس ان کے تما م مسائل کا حل موجودہے۔45 روزہ دھرنے کے دوران تحریک انصاف کی عوامی پذیرائی میں جو کمی دیکھنے میں آرہی تھی ،28ستمبر کے جلسے نے اسے دوبارہ کھویا ہوا مقام واپس لوٹا دیا ہے۔پی ٹی آئی لاہور کے صدر علیم خان اور ان کی ٹیم نے 6دن میں ناممکن کو ممکن کر دکھایا ۔ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان جاری سر د جنگ میں مینار پاکستان کے جلسے نے بلا شبہ عمران خان کو اخلاقی برتری دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کے بعد وہ اور ان کی جماعت اس ذہنی دبائو سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے جو حکومت کی طرف سے تحریک انصاف کے اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق کے لئے ان پر ڈالا جا رہا تھا۔کراچی میں تحریک انصاف کے کامیاب جلسے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پی ٹی آئی اراکین کو الگ الگ طلب کر کے ان سے استعفوں کی تصدیق کرنا تھی مگر تحریک انصاف کے انکاراور اس کے بعد سیاسی جرگے کی مداخلت کے باعث یہ معاملہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی کمیٹی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پنجاب میں بھی تحریک انصاف نے سپیکر رانا اقبال کے سامنے پیش ہونے سے انکارکرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے اجتماعی طور پر استعفے دیے تھے ، چناں چہ سب اراکین کو ایک ساتھ بلایا جائے۔ تحریک انصاف کے اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے تویہاں تک کہہ ڈالا ہے کہ حکومت اس طرح دو دو اراکین کے استعفے منظور کر کے مرحلہ وار ضمنی الیکشن کرا کے جان چھڑانا چاہتی ہے مگر ہم یہ سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستانی قوم کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے، انہیں سامنے رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں اوران کی قیادت کو ذاتی ضد اور اناکی جنگ چھوڑ کر ملک و قوم کے بنیادی مسائل جیسا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روز گاری، کرپشن، امن و امان کی ناقص صورتِ حال، معاشی زبوں حالی اور غیر ملکی قرضوں سے نجات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے مگر صد افسوس کہ قومی سیاسی قیادت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے عوامی مسائل سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے سیاسی حریفوںپر ذاتی حملے کرنے میں مصروف نظر آتی ہے، کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب حکومت اور تحریک انصاف کے قائدین ایک دوسرے کو مطعون کرنے اور ٹف ٹائم دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتے ہوں۔ گزشتہ ماہ بجلی اور گیس کے بھاری بلوں کی صورت میں عوام کے مسائل میںتو کئی گنا اضافہ ہوا لیکن حکومت کی مشکلات بھی اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ واپسی کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ان حالات میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو یہ کریڈٹ دیناپڑے گا کہ انہوں نے اپنی جہد مسلسل سے عام آدمی میں اپنے حقوق حاصل کرنے کی جو روح پھونکی ہے ،اب اس نے رفتہ رفتہ حقیقت کی شکل اختیار کرنا شروع کر دی ہے ، عوام کا یہ غم و غصہ بے جا نہیں۔ عرصہ دراز سے عوام کو جس فلاحی معاشرے کے خواب حکمران کلاس دکھاتی چلی آ رہی ہے،انہیں جب ان کی تعبیر نہیں ملتی تو وہ’’ گو.....گو ‘‘کہہ کر اس گلے سڑے نظام سے اپنی نفرت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔موجودہ نظام میں عام آدمی کے لیے کوئی قابلِ عمل راستہ نہ نکالا گیا تو اس ملک کوکوئی حکمران اور صاحب اختیار عوامی غیض و غضب سے نہیں بچا سکے گا کیوں کہ عام آدمی کو گزشتہ65بر س سے جس طرح اس کے بنیادی حقوق سے مسلسل محروم رکھا جا رہا ہے ،امیر اور غریب کے لئے الگ الگ پالیسیوں کے نتیجے میں اس کے دل و دماغ میں جو لاوا پک رہا ہے، وہ اب پھٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گا ۔ عمران خان اور حکومت کے لئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ دھرنوں، جلسوںاور الزامات کی سیاست چھوڑ کر سنجیدگی سے مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیں،اور ایک دوسرے کے مطالبات پر غور کریں، جیسا کہ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف میں آرڈیننس کے ذریعے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جیوڈیشل کمیشن بنانے پر اتفاق ہو گیا ہے ۔ دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خود مڈٹرم الیکشن کا اعلان کردیں، یوں اگرچہ انہوں نے بہ ظاہر ایک تجویز دی ہے لیکن گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش ہے۔ اگر یہ الیکشن ہو جاتے ہیں تو کارکنوں سے دور اورگمنامی میں ڈوبی پیپلز پارٹی کو ایک مرتبہ پھر سے نئی سیاسی زندگی مل جائے گی اور وہ دیگر ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر اگلے سال ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے لئے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی نے18اکتوبر کوکراچی میں شریک چیئرمین بلاول بھٹو کا جو جلسہ رکھا ہے، اس کے ذریعے حکومت پر مزید دبائو ڈالا جائے گا۔ان حالات میں اگر حکومت پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی اپوزیشن جماعتوں کے حالیہ دبائو سے نکلنے میں سنجیدہ ہے تو فوری طور پر بلدیاتی الیکشن کروانے کا اعلان کر دے جس سے نہ صرف سیاسی جماعتوں کی توجہ ایک نئے محاذ پر مرکوز ہو جائے گی بلکہ اس طرح عام آدمی کے مسائل اس کے گھر کی دہلیز پر حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔حکمران جماعت کو عدلیہ، ہیئت مقتدرہ اور الیکشن کمیشن کو اعتماد میں لے کر بلدیاتی انتخابات کا روڈ میپ تیار کرنا ہو گا ۔مسلم لیگ ن اگر سنجیدگی سے بلدیاتی الیکشن کرانے کے آپشن پر کام کرے تو اسے حالیہ بحرانوں سے نکلنے میں دشواری پیش نہیں آئے گی۔وزیراعلیٰ شہباز شریف کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ پاکستان کو آگے لے جانے کے لئے ’’میں‘‘ نہیں بلکہ ہم والا رویہ اپنانا ہو گا۔ ٭…٭…٭

Moona
05-09-2016, 01:06 AM
عمران خان دھرنوں کے بعد جلسوں کے محاذ پر سرگرم



http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x10720_16982715.jpg.pagespeed.ic.XnRq5p9Tjc .jpg


فرخ بصیر
کراچی کے شاندار جلسے کے بعد محض ایک ہفتے کے نوٹس پرصوبائی دارالحکومت میں مینارپاکستان کے سایے تلے ہونے والے جلسے نے جہاںایک بار پھر عمران خان کو مقبولیت کے بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے‘ وہاں اس تصور کو بھی دھچکا لگاہے کہ لاہور مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے ،خاص طور پر اس جلسے میں مزدوروں، ہاریوں اور بکر منڈی کے بیوپاریوں سے لے کر پڑھے لکھے نوجوانوں اور فیملیز کی کثیر تعداد میں شرکت اس حقیقت کی غماز تھی کہ اب عوام اوربالخصوص خاموش ووٹرز نے نہ صرف عمران خان کی تقاریر پرکان دھرنے شروع کر دیے ہیں بلکہ انہیں وہ ایک ایسی طلسماتی شخصیت معلوم ہونے لگے ہیں جن کے پاس ان کے تما م مسائل کا حل موجودہے۔45 روزہ دھرنے کے دوران تحریک انصاف کی عوامی پذیرائی میں جو کمی دیکھنے میں آرہی تھی ،28ستمبر کے جلسے نے اسے دوبارہ کھویا ہوا مقام واپس لوٹا دیا ہے۔پی ٹی آئی لاہور کے صدر علیم خان اور ان کی ٹیم نے 6دن میں ناممکن کو ممکن کر دکھایا ۔ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان جاری سر د جنگ میں مینار پاکستان کے جلسے نے بلا شبہ عمران خان کو اخلاقی برتری دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کے بعد وہ اور ان کی جماعت اس ذہنی دبائو سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے جو حکومت کی طرف سے تحریک انصاف کے اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق کے لئے ان پر ڈالا جا رہا تھا۔کراچی میں تحریک انصاف کے کامیاب جلسے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پی ٹی آئی اراکین کو الگ الگ طلب کر کے ان سے استعفوں کی تصدیق کرنا تھی مگر تحریک انصاف کے انکاراور اس کے بعد سیاسی جرگے کی مداخلت کے باعث یہ معاملہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی کمیٹی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پنجاب میں بھی تحریک انصاف نے سپیکر رانا اقبال کے سامنے پیش ہونے سے انکارکرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے اجتماعی طور پر استعفے دیے تھے ، چناں چہ سب اراکین کو ایک ساتھ بلایا جائے۔ تحریک انصاف کے اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے تویہاں تک کہہ ڈالا ہے کہ حکومت اس طرح دو دو اراکین کے استعفے منظور کر کے مرحلہ وار ضمنی الیکشن کرا کے جان چھڑانا چاہتی ہے مگر ہم یہ سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستانی قوم کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے، انہیں سامنے رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں اوران کی قیادت کو ذاتی ضد اور اناکی جنگ چھوڑ کر ملک و قوم کے بنیادی مسائل جیسا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روز گاری، کرپشن، امن و امان کی ناقص صورتِ حال، معاشی زبوں حالی اور غیر ملکی قرضوں سے نجات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے مگر صد افسوس کہ قومی سیاسی قیادت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے عوامی مسائل سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے سیاسی حریفوںپر ذاتی حملے کرنے میں مصروف نظر آتی ہے، کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب حکومت اور تحریک انصاف کے قائدین ایک دوسرے کو مطعون کرنے اور ٹف ٹائم دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتے ہوں۔ گزشتہ ماہ بجلی اور گیس کے بھاری بلوں کی صورت میں عوام کے مسائل میںتو کئی گنا اضافہ ہوا لیکن حکومت کی مشکلات بھی اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ واپسی کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ان حالات میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو یہ کریڈٹ دیناپڑے گا کہ انہوں نے اپنی جہد مسلسل سے عام آدمی میں اپنے حقوق حاصل کرنے کی جو روح پھونکی ہے ،اب اس نے رفتہ رفتہ حقیقت کی شکل اختیار کرنا شروع کر دی ہے ، عوام کا یہ غم و غصہ بے جا نہیں۔ عرصہ دراز سے عوام کو جس فلاحی معاشرے کے خواب حکمران کلاس دکھاتی چلی آ رہی ہے،انہیں جب ان کی تعبیر نہیں ملتی تو وہ’’ گو.....گو ‘‘کہہ کر اس گلے سڑے نظام سے اپنی نفرت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔موجودہ نظام میں عام آدمی کے لیے کوئی قابلِ عمل راستہ نہ نکالا گیا تو اس ملک کوکوئی حکمران اور صاحب اختیار عوامی غیض و غضب سے نہیں بچا سکے گا کیوں کہ عام آدمی کو گزشتہ65بر س سے جس طرح اس کے بنیادی حقوق سے مسلسل محروم رکھا جا رہا ہے ،امیر اور غریب کے لئے الگ الگ پالیسیوں کے نتیجے میں اس کے دل و دماغ میں جو لاوا پک رہا ہے، وہ اب پھٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گا ۔ عمران خان اور حکومت کے لئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ دھرنوں، جلسوںاور الزامات کی سیاست چھوڑ کر سنجیدگی سے مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیں،اور ایک دوسرے کے مطالبات پر غور کریں، جیسا کہ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف میں آرڈیننس کے ذریعے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جیوڈیشل کمیشن بنانے پر اتفاق ہو گیا ہے ۔ دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خود مڈٹرم الیکشن کا اعلان کردیں، یوں اگرچہ انہوں نے بہ ظاہر ایک تجویز دی ہے لیکن گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش ہے۔ اگر یہ الیکشن ہو جاتے ہیں تو کارکنوں سے دور اورگمنامی میں ڈوبی پیپلز پارٹی کو ایک مرتبہ پھر سے نئی سیاسی زندگی مل جائے گی اور وہ دیگر ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر اگلے سال ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے لئے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی نے18اکتوبر کوکراچی میں شریک چیئرمین بلاول بھٹو کا جو جلسہ رکھا ہے، اس کے ذریعے حکومت پر مزید دبائو ڈالا جائے گا۔ان حالات میں اگر حکومت پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی اپوزیشن جماعتوں کے حالیہ دبائو سے نکلنے میں سنجیدہ ہے تو فوری طور پر بلدیاتی الیکشن کروانے کا اعلان کر دے جس سے نہ صرف سیاسی جماعتوں کی توجہ ایک نئے محاذ پر مرکوز ہو جائے گی بلکہ اس طرح عام آدمی کے مسائل اس کے گھر کی دہلیز پر حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔حکمران جماعت کو عدلیہ، ہیئت مقتدرہ اور الیکشن کمیشن کو اعتماد میں لے کر بلدیاتی انتخابات کا روڈ میپ تیار کرنا ہو گا ۔مسلم لیگ ن اگر سنجیدگی سے بلدیاتی الیکشن کرانے کے آپشن پر کام کرے تو اسے حالیہ بحرانوں سے نکلنے میں دشواری پیش نہیں آئے گی۔وزیراعلیٰ شہباز شریف کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ پاکستان کو آگے لے جانے کے لئے ’’میں‘‘ نہیں بلکہ ہم والا رویہ اپنانا ہو گا۔ ٭…٭…٭










intelligent086 Thanks 4 informative sharing :)