PDA

View Full Version : جل پری



intelligent086
10-03-2014, 12:15 AM
جل پری
اس قدر دودھیا خوشنما ہنس کر
اپنی جانب لپکتے ہُوئے دیکھ کر مُسکرائی
مگر اس کی یہ مسکراہٹ ہنسی بننے سے قبل ہی چیخ میں ڈھل گئی
اُس کا انکار بے سُود
وحشت ، سراسیمگی ، اجنبی پھڑپھڑاہٹ میں گُم ہو گئی
آہ و زاری کے با وصف
مضبوط پَر اُس کا سارا بدن ڈھک چکے تھے!
اُجلی گردن میں وحشت زدہ چونچ اُتری چلی جا رہی تھی
اُس کے آنسو
سمندر میں شبنم کی مانند حل ہو گئے!
سِسکیاں
تُند موجوں کی آواز میں بے صدا ہو گئیں !
ہنس اپنے لہُو کی دہکتی ہُوئی وحشتیں
نیم بے ہوش خوشبو کے رس سے بجھاتا رہا
اور پھر اپنے پیاسے بدن کے مساموں پہ
بھیگی ہُوئی لذّتوں کی تھکن اوڑھ کر اُڑ گیا!
جل پری
گہرے نیلے سمندر کی بیٹی
اپنی مفتوح و نا منتظر کوکھ میں
آسماں اور زمیں کے کہیں درمیاں رہنے والو ں کا
بے شجرہ و بے نسب ورثے کا بوجھ تھامے ہُوئے
آج تک رو رہی ہے!

کیا کیا نہ خواب ہجر کے موسم میں کھو گئے
ہم جاگتے رہے تھے مگر بخت سوگئے
اُس نے پیام بھیجے تو رستے میں رہ گئے
ہم نے جو خط لکھے تو ہَوا بُرد ہو گئے
مَیں شہرِ گل میں زخم کا چہرہ کسے دکھاؤں
شبنم بدست لوگ تو کانٹے چبھو گئے
آنچل میں پھُول لے کے کہاں جا رہی ہُوں مَیں
جو آنے والے لوگ تھے ، وہ لوگ تو گئے
کیا جانیے ، اُفق کے اُدھر کیا طلسم ہے
لَوٹے نہیں زمین پہ ، اِک بار جو گئے
جیسے بدن سے قوسِ قزح پھوٹنے لگی
بارش کے ہاتھ پھُول کے سب زخم دھو گئے
آنکھوں میں دھیرے دھیرے اُتر کے پُرانے غم
پلکوں میں ننھّے ننھّے ستارے پرو گئے
وہ بچپنے کی نیند تو اب خواب ہو گئی
کیا عُمر تھی کہ رات ہُوئی اور سوگئے!
کیا دُکھ تھے ، کون جان سکے گا، نگارِ شب !
جو میرے اور تیرے دوپٹّے بھگو گئے!

ویسے تو کج ادائی کا دُکھ نہیں سہا
آج اُس کی بے رُخی نے مگر دل دُکھا دیا
موسم مزاج تھا ، نہ زمانہ سرشت تھا
میں اب بھی سوچتی ہوں وہ کیسے بدل گیا
دُکھ سب کے مشترک تھے مگر حوصلے جُدا
کوئی بِکھر گیا تو کوئی مُسکرا دِیا
جھوٹے تھے کیا ہُوئی کہ جو آنسو نہ بن سکی
وہ درد کیا ہُوا کہ جو مصرعہ نہ بن سکا
ایسے بھی زخم تھے کہ چھپاتے پھرے ہیں ہم
درپیش تھا کسی کے کرم کا معاملہ
آلودۂ سخن بھی نہ ہونے دیا اُسے
ایسا بھی دُکھ ملا جو کسی سے نہیں کہا
تیرا خیال کر کے میں خاموش ہو گئی
ورنہ زبانِ خلق سے کیا کیا نہیں سُنا
میں جانتی ہوں ، میری بھلائی اسی میں تھی
لیکن یہ فیصلہ بھی کچھ اچھّا نہیں ہُوا
میں برگ بر گ اُس کو نمو بخشتی رہی
وہ شاخ شاخ میری جڑیں کاٹتا رہا

Dr Danish
08-17-2015, 09:43 PM
جل پری


اس قدر دودھیا خوشنما ہنس کر
اپنی جانب لپکتے ہُوئے دیکھ کر مُسکرائی
مگر اس کی یہ مسکراہٹ ہنسی بننے سے قبل ہی چیخ میں ڈھل گئی
اُس کا انکار بے سُود
وحشت ، سراسیمگی ، اجنبی پھڑپھڑاہٹ میں گُم ہو گئی
آہ و زاری کے با وصف
مضبوط پَر اُس کا سارا بدن ڈھک چکے تھے!
اُجلی گردن میں وحشت زدہ چونچ اُتری چلی جا رہی تھی
اُس کے آنسو
سمندر میں شبنم کی مانند حل ہو گئے!
سِسکیاں
تُند موجوں کی آواز میں بے صدا ہو گئیں !
ہنس اپنے لہُو کی دہکتی ہُوئی وحشتیں
نیم بے ہوش خوشبو کے رس سے بجھاتا رہا
اور پھر اپنے پیاسے بدن کے مساموں پہ
بھیگی ہُوئی لذّتوں کی تھکن اوڑھ کر اُڑ گیا!
جل پری
گہرے نیلے سمندر کی بیٹی
اپنی مفتوح و نا منتظر کوکھ میں
آسماں اور زمیں کے کہیں درمیاں رہنے والو ں کا
بے شجرہ و بے نسب ورثے کا بوجھ تھامے ہُوئے
آج تک رو رہی ہے!

کیا کیا نہ خواب ہجر کے موسم میں کھو گئے
ہم جاگتے رہے تھے مگر بخت سوگئے
اُس نے پیام بھیجے تو رستے میں رہ گئے
ہم نے جو خط لکھے تو ہَوا بُرد ہو گئے
مَیں شہرِ گل میں زخم کا چہرہ کسے دکھاؤں
شبنم بدست لوگ تو کانٹے چبھو گئے
آنچل میں پھُول لے کے کہاں جا رہی ہُوں مَیں
جو آنے والے لوگ تھے ، وہ لوگ تو گئے
کیا جانیے ، اُفق کے اُدھر کیا طلسم ہے
لَوٹے نہیں زمین پہ ، اِک بار جو گئے
جیسے بدن سے قوسِ قزح پھوٹنے لگی
بارش کے ہاتھ پھُول کے سب زخم دھو گئے
آنکھوں میں دھیرے دھیرے اُتر کے پُرانے غم
پلکوں میں ننھّے ننھّے ستارے پرو گئے
وہ بچپنے کی نیند تو اب خواب ہو گئی
کیا عُمر تھی کہ رات ہُوئی اور سوگئے!
کیا دُکھ تھے ، کون جان سکے گا، نگارِ شب !
جو میرے اور تیرے دوپٹّے بھگو گئے!

ویسے تو کج ادائی کا دُکھ نہیں سہا
آج اُس کی بے رُخی نے مگر دل دُکھا دیا
موسم مزاج تھا ، نہ زمانہ سرشت تھا
میں اب بھی سوچتی ہوں وہ کیسے بدل گیا
دُکھ سب کے مشترک تھے مگر حوصلے جُدا
کوئی بِکھر گیا تو کوئی مُسکرا دِیا
جھوٹے تھے کیا ہُوئی کہ جو آنسو نہ بن سکی
وہ درد کیا ہُوا کہ جو مصرعہ نہ بن سکا
ایسے بھی زخم تھے کہ چھپاتے پھرے ہیں ہم
درپیش تھا کسی کے کرم کا معاملہ
آلودۂ سخن بھی نہ ہونے دیا اُسے
ایسا بھی دُکھ ملا جو کسی سے نہیں کہا
تیرا خیال کر کے میں خاموش ہو گئی
ورنہ زبانِ خلق سے کیا کیا نہیں سُنا
میں جانتی ہوں ، میری بھلائی اسی میں تھی
لیکن یہ فیصلہ بھی کچھ اچھّا نہیں ہُوا
میں برگ بر گ اُس کو نمو بخشتی رہی
وہ شاخ شاخ میری جڑیں کاٹتا رہا




Nice Sharing .....
Thanks

intelligent086
08-18-2015, 12:53 AM
Nice Sharing .....
Thanks




http://www.mobopk.com/images/pasandbohatbohatvyv.gif