PDA

View Full Version : Deewan-e-Galib



Pages : [1] 2

  1. نقش فریادی ہےکس کی شوخئ تحریر کا
  2. جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغِ جگر ہدیہ
  3. جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
  4. کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
  5. ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب
  6. دل میرا سوز ِنہاں سے بے محابا جل گیا
  7. شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا
  8. دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
  9. شمار سبحہ،” مرغوبِ بتِ مشکل” پسند آیا
  10. دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا
  11. ستایش گر ہے زاہد ، اس قدر جس باغِ رضواں کا
  12. نہ ہوگا “یک بیاباں ماندگی” سے ذوق کم میرا
  13. سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی
  14. محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
  15. بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
  16. شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا
  17. نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
  18. نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
  19. ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
  20. بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
  21. شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا
  22. دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
  23. یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتاا
  24. ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
  25. درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
  26. اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں
  27. پۓ نذرِ کرم تحفہ ہے ‘شرمِ نا رسائی’ کا
  28. گر نہ ‘اندوہِ شبِ فرقت ‘بیاں ہو جائے گا
  29. درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
  30. گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا
  31. قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفَس پرور ہوا
  32. جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
  33. میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں
  34. گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
  35. نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوت&
  36. یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا
  37. وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا
  38. پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
  39. ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
  40. لب خشک در تشنگی، مردگاں کا
  41. تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا
  42. شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا
  43. آئینہ دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
  44. ضعفِ جنوں کو وقتِ تپش در بھی دور تھا
  45. فنا کو عشق ہے بے مقصداں حیرت پرستاراں
  46. عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
  47. رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!
  48. ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
  49. سرمۂ مفتِ نظر ہوں مری قیمت* یہ ہے
  50. غافل بہ وہمِ ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
  51. جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
  52. لطافت بےکثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
  53. عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
  54. شکوۂ یاراں غبارِ دل میں پنہاں کر دیا
  55. پھر وہ سوۓ چمن آتا ہے خدا خیر کرے
  56. اسدؔ! یہ عجز و بے سامانئِ فرعون توَام ہے
  57. بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج
  58. بہ رہنِ شرم ہے با وصفِ شوخی اہتمام اس کا
  59. عیب کا دریافت کرنا، ہے ہنرمندی اسدؔ
  60. شب کہ ذوقِ گفتگو سے تیرے، دل بے تاب تھا
  61. دود کو آج اس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی
  62. پھر ہوا وقت کہ ہو بال کُشا موجِ شراب
  63. افسوس کہ دنداں* کا کیا رزق فلک نے
  64. رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
  65. آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست
  66. مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ
  67. گلشن میں بند وبست بہ رنگِ دگر ہے آج
  68. معزولئ تپش ہوئی افرازِ انتظار
  69. لو ہم مریضِ عشق کے بیماردار ہیں
  70. نفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
  71. حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
  72. ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
  73. تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
  74. بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار
  75. گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
  76. کیوں جل گیا نہ، تابِ رخِ یار دیکھ کر
  77. لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہرِ درخشاں پر
  78. ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
  79. صفاۓ حیرت آئینہ ہے سامانِ زنگ آخر
  80. جنوں کی دست گیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
  81. ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں
  82. فارغ مجھے نہ جان کہ مانندِ صبح و مہر
  83. لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
  84. حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز
  85. کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز
  86. وسعتِ سعیِ کرم دیکھ کہ سر تا سرِ خاک
  87. گل کھلے غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی
  88. نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
  89. مُژدہ ، اے ذَوقِ اسیری ! کہ نظر آتا ہے
  90. نہ لیوے گر خسِ جَوہر طراوت سبزۂ خط سے
  91. اے اسدؔ ہم خود اسیرِ رنگ و بوۓ باغ ہیں
  92. جادۂ رہ خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع
  93. رُخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع
  94. بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش
  95. زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک
  96. آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے* تک
  97. دیکھنے میں ہیں گرچہ دو، پر ہیں یہ دونوں یار &#
  98. گر تُجھ کو ہے یقینِ اجابت ، دُعا نہ مانگ
  99. ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گُل
  100. غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
  101. بـہ نالہ دل بستگـی فراہــم کـر
  102. مجھ کو دیارِ غیر میں مارا، وطن سے دور
  103. رسیدن گلِ باغ واماندگی ہے
  104. لوں وام بختِ خفتہ سے یک خوابِ خوش ولے
  105. وہ فراق اور وہ وصال کہاں
  106. کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
  107. آبرو کیا خاک اُس گُل کی۔ کہ گلشن میں نہیں
  108. عہدے سے مدِحناز کے باہر نہ آ سکا
  109. میں گیا وقت نہیں ہوںکہ پھر آ بھی نہ سکوں
  110. ہم سے کھل جاؤ بوقتِ مے پرستی ایک دن
  111. ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
  112. مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
  113. مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
  114. برشکالِ* گریۂ عاشق ہے* دیکھا چاہۓ
  115. عشق تاثیر سے نومید نہیں
  116. جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
  117. ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
  118. کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں
  119. حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
  120. ذکر میرا بہ بدی بھی، اُسے منظور نہیں
  121. نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد نہیں
  122. دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
  123. ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر
  124. قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا
  125. دل لگا کر لگ گیا اُن کو بھی تنہا بیٹھنا
  126. یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
  127. نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
  128. تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
  129. زمانہ سخت کم آزار ہے، بہ جانِ اسدؔ
  130. سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
  131. ۔دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں
  132. دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں
  133. نہیں ہے رخم کوئی بخیے کے درخُور مرے تن میں
  134. مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
  135. دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیو
  136. غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں
  137. مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے
  138. صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
  139. ہندوستان سایۂ گل پاۓ تخت تھا
  140. نہ پوچھ حال اس انداز، اس عتاب کے ساتھ
  141. ہے سبزہ زار ہر در و دیوارِ غم کدہ
  142. از مہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ
  143. شبِ وصال میں مونس گیا ہے بَن تکیہ
  144. بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو
  145. رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
  146. کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو
  147. گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
  148. تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
  149. واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
  150. واں اس کو ہولِ دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار
  151. قفس میں ہوں گر اچّھا بھی نہ جانیں میرے شیون &#
  152. ملی نہ وسعتِ جولان یک جنون ہم کو
  153. ابر روتا ہے کہ بزمِ طرب آمادہ کرو
  154. وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو
  155. کعبے میں جا رہا، تو نہ دو طعنہ، کیا کہیں
  156. حسد سے دل اگر افسردہ ہے، گرمِ تماشا ہو
  157. دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
  158. مے کشی کو نہ سمجھ بےحاصل
  159. میر کے شعر کا احوال کہوں کیا غالبؔ
  160. جس دن سے کہ ہم خستہ گرفتارِ بلا ہیں
  161. ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
  162. اپنا احوالِ دلِ زار کہوں یا نہ کہوں
  163. ہم بے خودئ عشق میں کر لیتے ہیں سجدے
  164. ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
  165. عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
  166. چشمِ خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
  167. رحم کر ظالم کہ کیا بودِ چراغِ کشتہ ہے
  168. مری ہستی فضاۓ حیرت آبادِ تمنّا ہے
  169. پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
  170. ایک جا حرفِ وفا لکّھا تھا، سو* بھی مٹ گیا
  171. تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے* پوچھو
  172. گر خامشی سے فائدہ اخفاۓ حال ہے
  173. سر گشتگی میں عالمِ ہستی سے یاس ہے
  174. درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
  175. کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
  176. حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
  177. غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
  178. گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
  179. تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
  180. ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
  181. بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
  182. دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
  183. ۔ اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ ہم بیابا
  184. سادگی پر اس کی، مر جانے کی حسرت دل میں ہے
  185. کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
  186. گرمِ فریاد رکھا شکلِ نہالی نے مجھے
  187. دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے
  188. رفتارِ عمر قطعِ رہ اضطراب ہے
  189. زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ
  190. اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
  191. میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
  192. آ، کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
  193. جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
  194. ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
  195. بے اعتدالیوں سے سبُک سب میں ہم ہوئے
  196. نِکوہِش ہے سزا فریادئِ بیدادِ دِلبر کی
  197. جنوں تہمت کشِ تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
  198. پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے
  199. کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے
  200. دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
  201. کوئی امّید بر نہیں آتی
  202. تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے
  203. گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے
  204. نقشِ نازِ بتِ طنّاز بہ آغوشِ رقیب
  205. کب وہ سنتا ہے کہانی میری
  206. تغافل دوست ہوں میرا دماغِ عجز عالی ہے
  207. پھر اس انداز سے بہار آئی
  208. غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
  209. ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
  210. شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
  211. عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے
  212. نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی نہ سہی
  213. حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے
  214. جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
  215. ہجومِ غم سے یاں تک سر نگونی مجھ کو حاصل ہے
  216. پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
  217. جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
  218. سیماب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے ہم
  219. ہے وصل ہجر عالمِ تمکین و ضبط میں
  220. یاد ہے شادی میں بھی ، ہنگامۂ “یارب” ، مجھے
  221. دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے
  222. دیا ہے دل اگر اُس کو ، بشر ہے ، کیا کہیے
  223. کیوں نہ ہو چشمِ بُتاں محوِ تغافل ، کیوں نہ ہ&#
  224. کرے ہے بادہ ، ترے لب سے ، کسبِ رنگِ فروغ
  225. ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
  226. نہ پُوچھ نسخۂ مرہم جراحتِ دل کا
  227. فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے
  228. خطر ہے رشتۂ اُلفت رگِ گردن نہ ہو جائے
  229. تپِش سے میری ، وقفِ کش مکش ، ہر تارِ بستر ہے
  230. وہ آ کے ، خواب میں ، تسکینِ اضطراب تو دے
  231. چاک کی خواہش ، اگر وحشت بہ عُریانی کرے
  232. نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے
  233. چاہیے اچھّوں کو ، جتنا چاہیے
  234. ہر قدم دورئِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
  235. حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے
  236. کوہ کے ہوں بارِ خاطر گر صدا ہو جائیے
  237. ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
  238. روندی ہوئی ہے کوکبہ شہریار کی
  239. باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
  240. بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
  241. ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
  242. جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
  243. حسنِ بے پروا خریدارِ متاعِ جلوہ ہے
  244. عرضِ نازِ شوخئِ دنداں براۓ خندہ ہے
  245. نشّہ ہا شادابِ رنگ و ساز ہا مستِ طرب
  246. رونے سے اور عشق میں بےباک ہو گۓ
  247. ۔ کہوں جو حال تو کہتے ہو “مدعا کہیے
  248. بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
  249. لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے
  250. کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں ، گر آجائے ہے ، مُ