- جسے پہلو میں رہ کر درد حاصل ہو نہیں سکتا
- یہ زمانہ یہ دور کچھ بھی نہیں
- وہ تو بس وعدۂ دیدار سے بہلانا تھا
- کوئی جائے طور پہ کس لئے کہاں اب وہ خوش نظری ر&
- دل خون ہو تو کیوں کر نہ لہو آنکھ سے برسے
- اٹھے نہ تھے ابھی ہم حالِ دل سنانے کو
- نہ کرشمہ قوسِ قزح سے کم ، نہ کشش ہلال کے خم سے
- نکل گئے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے
- مری نظر سے مکمل بہار گزری ہے
- دل کی دھڑکن کہ جاں سے آتی ہے
- کوئی اِس دشتِ وفا میں نہ چلا میرے بعد
- دین سے دور ، نہ مذہب سے الگ بیٹھا ہوں
- بہت کچھ ہم نے دیکھا دیکھنے کو
- غمِ ہجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں
- ہم کسی کا گِلا نہیں کرتے
- وفا ہو کر ، جفا ہو کر ، حیا ہو کر ، ادا ہو کر
- ہنس دئیے چمن میں گُل ، کس لئے خدا جانے
- تابشِ حسن سے یہ رنگ ہے میخانے کا
- مئے کشی کے ساتھ لطفِ رقصِ پیمانہ الگ
- آنا جانا تو ہے واعظ! مرے کاشانے تک
- لاکھ ڈھونڈا مگر نہیں ملتا
- ان سے ہر وقت مری آنکھ لڑی رہتی ہے
- راہوں سے تری گزر رہا ہوں
- آغوشِ جنو ں میں جا رہا ہوں
- دل تمہاری طرف سے صاف کیا
- جان پیاری تھی ، مگر جان سے پیارے تم تھے
- پھرا کر اپنے رخ کو پھیر میں چلمن کے بیٹھے ہی
- جگمگانے لگی بام و در چاندنی
- یہ بزمِ بتا ں ہے نظاروں کی دنیا
- شبِ فراق نہ تم آ سکے نہ موت آئی
- اب تو کہتے ہیں کہ جا ! میری نظر سے دور ہو
- کر دیا قتل تو میّت بھی اٹھا تے جاتے
- چارہ سازو ! کیوں دوا کرتے ہو، مر جانے بھی دو
- یہ کس کو لوگ لیے جا رہے ہیں کاندھوں پر
- ہم تو جینے کے لیے مرتے ہیں ان پر ہر دم
- یہ ممکن ہے ترے کوچے میں رہ کر جان سے جائیں
- فرقت میں تو مرنا بھی گوارا نہیں مجھ کو
- میں چراغِ ناتواں ہوں، کوئی دم کا میہماں ہو
- چلے بھی آئیے ! کل کا کچھ اعتبار نہیں
- کفن بھی ہو گا مرا پاک صاف اور نیا
- تا دمِ زیست شکایت رہے آہوں سے نصیر
- عدم کو لے کے چلا ہوں نصیر داغِ فراق
- مر ہی جائیں جو ہم کو مرنا ہے
- رکھ دو جو اپنے ہاتھو ں سے میّت اتار کے
- ہمیں اٹھانے کو آئے وہ فتنۂ محشر
- رند مِل مِل کے گلے روئے تھے پیمانے سے
- اب اس کے بعد چمن جانے یا صبا جانے
- سب پہ احسان ہے ساقی ترے میخانے کا
- یہ کہ کہ کر پلا دی مجھ کو میخانے میں ساقی نے
- نہیں تھے وہ ، تو میخانہ تھا سُونا، جام ویرا
- پھر آپ جام لیے آرہے ہیں میری طرف
- کل نصیر ایک جام کا ملنا ہمیں دشوار تھا
- ٹوٹتا ہے نشّہ ، اے پیرِ مغاں ! اک جام دے
- ساقیِ ء کوثر و تسنیم سے نسبت ہے نصیر
- آج ساقی پلا شیخ کو بھی
- شرابِ ارغوانی چاہتا ہوں
- میکشوں سے نہ الجھ اے واعظ !
- یوں تبسم ہے ان کے ہونٹوں پر
- بادۂ ناب کا کیا ہے وہ تو پی ہی لیں گے
- پی تو لیتے ہیں حضرتِ واعظ
- اے ساقیِ میخانہ ! عنایت کی نظر ہو
- ملی تو دیدۂ ساقی سے ، تشنگی تو مِٹی
- پیالہ ہاتھ میں لینا ہی میگساری ہے
- مئے یقیناً حرام ہے ، زاہد !
- نہ وہ محفل ، نہ وہ ساقی، نہ وہ ساغر، نہ وہ باد
- سرِ میخانہ کوئی پارسا اب تک نہیں آیا
- پلائے گا ساقی تو پینی پڑے گی
- ترے بغیر کبھی مئے کا نام تک نہ لیا
- نظر میں بھی نہیں اب گھومتا پیمانہ برسوں سے
- خرد اٹھا نہ سکی پھر کوئی بھی ہنگامہ
- تیرے صدقے اب نہیں ساقی مجھے کوئی گلہ
- تو اگر رکھے گا ساقی ہم سے پیمانہ الگ
- مئے کے چھینٹوں سے ابھی پیاس بجھے گی زاہد !
- ساقیِ بزم ! پلا ، دیر نہ کر
- ساقی نہ ہو نصیر ! تو ویراں ہے میکدہ
- تمھارا حسن جسے لے اڑی تھی انگڑائی
- تمام میکدہ سراب ہو گیا جس سے
- زاہد نے چھلکتا ہوا ساغر نہیں دیکھا
- پی لیں جو کبھی شیخ تو پی پی کے پکاریں
- شرمندہ ہو نہ جائے کہیں شامِ میکدہ
- مئے کشی لازم نہیں ہے بزمِ ساقی میں نصیر
- جنابِ شیخ کی در پردہ رندی کا بھی کیا کہنا
- لگا دی تہمتِ بادہ کشی ا ن پر بھی واعظ نے
- گفتگو شیشہ و ساغر کی عبث ہے ساقی !
- جمالِ بادہ و ساغر میں ہیں رموز بہت
- دیر بوتل کے اٹھانے میں لگے گی کچھ نہ کچھ
- میکدے میں آنے والو ! میکدہ مت چھوڑنا
- اشعار