- شب کہ ذوقِ گفتگو سے تیرے دل بیتاب تھا
- نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا؟
- تھا، خواب میں ، خیال کو تجھ سے معاملہ
- نہیں بندِ زلیخا بے تکلف ماہِ کنعاں پر
- حُسن، غمزے کی کشاکش سے چھُٹا میرے بعد
- sham'am
- Har ek baat pe kehte ho tum ke ?too kya hai? ?
- aaiinaa kyuu.N na duu.N ke tamaashaa kahe.n jise
- Dukh Day Kar Sawaal Kartay ho,
- Kisi ko de ke dil koi nawaa-sanj-e-fughaaN kyuN ho?? ??
- arz-e-niyaaz-e-ishq ke qaabil nahii.n rahaa
- Dard se mere hai tujhko beqaraarii haaye haaye
- Jis bazm mein tu naaz say guftaar mein aaway,
- hai bas ki har ik unake ishare mein nishan aur
- aaeenaa kyun na dun ke tamaasha kahain jisey
- Khulta kisi
- Toote hain sheesha
- Zahid sharab
- Hum Ne Mohbaton Ky
- Tu wo zaalim hai Jo
- Dukh Day Kar Sawaal Kartay ho,
- ye jo ham hijr me.n
- ye na thee hamaaree qismat ke wisaal-e-yaar hota
- Gair lei.n mehfil mei.n bose jaam ke
- fir kuchh is dil ko beqaraaree hai
- har ek baat pe kehte ho tum ke ?too kya hai? ?
- Har baat par kehte ho tum ke tu kya hai
- Na Tha kucH to Khuda tha, Kuch na hota to Khuda hota
- Hathoan ki lakiroan pay mat ja ai Galib
- her aik bat pe kehtey ho tum k tu kia he
- Peenay dai sharab
- unke dekhe se jo aa jaatee
- Go haath mai junbish nahi,
- Nikalna khuld say aadam
- Wo Keh Ke Chalay Itni Mulaqat Bohot Hay
- Saray raah jo unsay nazar mili?
- jab se dekhi hai hamne duniya kareeb se
- a ki meri jan mein qarar nahi hai
- ah ko chahiye ik umr asar hone tak
- aina kyun na dun k tamasha kahen jise
- amad-e-khat se hua hai sard jo bazar-e-dost
- bahot sahi gam-e-geti sharab kam kya hai
- bas k dushwar hai har kam ka asan hona
- bazicha-e-atfal hai duniya mere age
- Mirza Ghalib Collection
- نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا؟
- تھا، خواب میں ، خیال کو تجھ سے معاملہ
- دوست، غمخواری میں میری، سعی فرماویں گے کی
- دل نہیں تجھ کو دکھاؤں ورنہ داغوں کی بہار
- دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
- بوئے گل، نالہ دل، دودِ چراغِ محفل
- ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا؟
- جلوہ مایوس نہیں دل، نگرانی، غافل!
- دود کو آج اُس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی
- گریہ چاہے ہے خرابی، مرے کاشانے کی
- شب کہ ذوقِ گفتگو سے تیرے دل بیتاب تھا
- محرم نہیں ہے تو ہی، نوا ہائے راز کا
- برہنِ شرم ہے با وصفِ شوخی اہتمام اس کا
- محبت تھی چمن سے ، لیکن اب یہ بیدماغی ہے
- میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
- ستایش گر ہے ، زاہد اس قدر جس باغِ رضواں کا
- شرحِ اسبابِ گرفتارئِ خاطر، مت پوچھ!
- پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
- غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ گل کم دو
- اعتبارِ عشق کی خانہ خرابی دیکھنا!
- اے وائے ! غفلتِ نگہِ شوق، ورنہ یاں
- لے تو لوں سوتے میں اُس کے پانو کا بوسہ
- پوچھ مت! وجہ سیہ مستیِ اربابِ چمن
- عشرتِ قطرہ، ہے دریا میں فنا ہو جانا
- رشک کہتا ہے کہ:" اس کا غیر سے اخلاص حیف!"
- رحمت اگر قبول کرے ، کیا بعید ہے !
- عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
- چھوڑا، مہِ نخشب کی طرح، دستِ قضا نے
- مشہدِ عاشق سے ، کوسوں تک جو اگتی ہے حنا
- فلک سے ہم کو عیشِ رفتہ کا کیا کیا تقاضا ہے !
- نہیں بندِ زلیخا بے تکلف ماہِ کنعاں پر
- حُسن، غمزے کی کشاکش سے چھُٹا میرے بعد
- آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ
- جاتا ہوں جدھر، سب کی اُٹھے ہے اُدھر انگشت
- فارغ مجھے نہ جان! کہ، جوں صبح و آفتاب
- یاد ہیں ، اے ہمنشیں ! تجھے وہ دن کہ، ذوقِ وجد م
- بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش
- تیرے لرزنے سے ظاہر ہے ، ناتوانیِ شمع
- کون آیا جو چمن بیتابِ استقبال ہے ؟
- نہ لیوے گر، خسِ جوہر، طراوت، سبزۂ خط سے
- نہ گلِ نغمہ ہوں ، نہ پردۂ ساز
- مُند گئیں ، کھولتے ہی کھولتے ، آنکھیں ، یک ب
- فرصتِ کاروبارِ شوق کسے ؟
- ہو گئے ہیں جمع، اجزائے نگاہِ آفتاب
- غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
- ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گُل؟
- دام، ہر موج میں ، ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ
- گر تجھ کو ہے یقینِ اجابت، دعا نہ مانگ
- ظاہر ہیں مری شکل سے افسوس کے نشاں
- ہے نزاکت، بس کہ فصلِ گل میں ، معمارِ چمن
- عشق، تاثیر سے نومید نہیں
- شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو، کہ جہاں
- عہدے سے مدحِ ناز کے باہر نہ آ سکا
- قرض کی پیتے تھے مے ، لیکن سمجھتے تھے ، کہ ہاں
- ہزاروں دل دیے ، جوشِ جنونِ عشق نے مجھ کو
- دیوانگی سے ، دوش پہ زنّار بھی نہیں
- پانو(پاؤں ) میں ، جب وہ، حنا باندھتے ہیں
- ہوئی یہ بیخودی چشم و زباں کو، تیرے جلوے سے
- وعدۂ سیرِ گلستاں ہے ، خوشا! طالعِ شوق
- نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد! نہیں
- عاشق ہوئے ہیں آپ بھی، ایک اور شخص پر
- ہے سنگ پر، براتِ معاشِ جنونِ عشق
- ہندوستان سایۂ گل پائے تخت تھا
- پرسشِ طرزِ دلبری کیجیے کیا ؟کہ بِن کہے
- واں پہنچ کر، جو غش آتا پے ہم ہے ، ہم کو
- چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے ، رنگ اختلاط کا
- بیدادِ انتظار کی طاقت نہ لا سکی
- خزاں کیا؟فصلِ گل کہتے ہیں کس کو؟ کوئی موسم
- مجھ سے مت کہہ" تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی"
- کیا کروں ؟غم ہائے پنہاں ، لے گئے صبر و قرار
- ہستی کے مت فریب میں آ جائیو، کہیں
- بساطِ عجز میں تھا ایک دل، یک قطرہ خوں وہ بھی
- کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
- پھر کچھ ایک، دل کو، بے قراری ہے
- کروں بیدادِ ذوقِ پر فشانی عرض، کیا قدرت
- دیکھنا تقریر کی لذّت، کہ جو اس نے کہا
- عشق مجھ کو نہیں ، وحشت ہی سہی
- مینائے مے ، ہے سرو، نشاطِ بہار سے
- ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
- پا بدامن ہو رہا ہوں ، بسکہ، میں صحرا نورد
- بہا ہے یاں تک اشکوں میں ، غبارِ کلفتِ خاطر
- آ! کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
- اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل!
- پنہاں تھا دام، سخت قریب آشیانہ کے
- رحم کر، ظالم! کہ، کیا بودِ چراغِ کشتہ ہے
- اُس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو، ہاں
- اچّھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصوّر
- تو وہ بد خو، کہ تحیر کو تماشا جانے
- کب وہ سنتا ہے ، کہانی میری
- غمِ زمانہ نے جھاڑی، نشاطِ عشق کی مستی
- مے پرستاں ! خُمِ مے منہ سے لگا لو، یعنی
- بن گیا تیغِ نگاہِ یار کا سنگِ فَساں
- گل، سر بسر، اشارۂ جیبِ دریدہ ہے
- کیوں نہ ہو، چشمِ بتاں ، محوِ تغافل، کیوں نہ
- نہ پوچھ! نسخہ مرہم جراحتِ دل کا
- تپش سے میری، وقفِ کشمکش، ہر تارِ بستر ہے
- کرے ہے قتل، لگاوٹ میں تیرا رو دینا
- صحبتِ رنداں سے واجب ہے حذر
- توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو، پھر ہم کو کیا؟
- ہر قدم، دوریِ منزل، ہے نمایاں مجھ سے
- عرضِ نازِ شوخیِ دندان، برائے خندہ ہے
- نشہ ہا، شادابِ رنگ، و ساز ہا مستِ طرب
- خدایا ! جذبۂ دل کی مگر تاثیر اُلٹی ہے ؟
- رونے سے ، اور عشق میں بے باک ہو گئے
- In se miliay, yah hain ustad ghalib
- غالب‘ شخص کا شاعر
- غالب کا عصری طاقت کے بارے اظہار خیال
- غالب اور جنت کی خوش خیالی
- غالب کا ایک شعر
- شعر غالب اور میری خیال آرائی
- استاد غالب کے کچھ اُردو تراجم ایک جائزہ
- لفظیات ِغالب کا ساختیاتی مطالعہ
- Tu dost kisi ka bhi sitamgar na hua.
- تفہیمات غالب
- مرزا غالب کی 147ویں برسی
- ذرّہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا