- مژگاں اٹھا، اشارۂ پیکاں میں بات کر
- سنو کہ بول رہا ہے وہ سر اتارا ہوا
- سرابِ دشت تجھے آزمانے والا کون
- خشک ہوتا ہی نہیں دیدۂ تر پانی کا
- رکا ہوا ہے یہ صحرا میں قافلہ کیسا
- شبِ درمیان
- وہ خدا ہے کہ صنم ہاتھ لگا کر دیکھیں
- اس تکلف سے نہ پوشاکِ بدن گیر میں آ
- وہ ان دنوں تو ہمارا تھا لیکن اب کیا ہے
- خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو
- شکستہ پیرہنوں میں بھی رنگ سا کچھ ہے
- جب بھی کی ہم رہیِ بادِ بہاری ہم نے
- زوالِ عمر کی افسردگی میں پھول کھلا
- بے کراں رات میں تو انجمن آرا ہے کہ ہم
- نظر میں رنگ تمھارے خیال ہی کے تو ہیں
- اسی دنیا میں مرا کوئے نگاراں بھی تو ہے
- کہیں خیام لگیں قریۂ وصال بھی آئے
- ہو چکا جو کچھ وہی بار دگر کرنا مجھے
- کچھ حرف و سخن پہلے تو اخبار میں آیا
- ایک ضد تھی، مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا
- اپنے آنگن ہی میں تھا، راہگزر میں کیا تھا
- اس نے کیا دیکھا کہ ہر صحرا چمن لگنے لگا
- تشنہ رکھا ہے نہ سرشار کیا ہے اُس نے
- جہانِ گم شدگاں کے سفر پہ راضی ہوں
- بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے
- اس سے بچھڑ کے بابِ ہنر بند کر دیا
- ملالِ دولتِ بردہ پہ خاک ڈالتے ہیں
- چھت پہ مہتاب نکلتا ہوا سرگوشی کا
- حلقۂ بے طلباں رنجِ گراں باری کیا
- تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیے تھے تمھ&
- زندہ رہنا تھا سو جاں نذرِ اجل کر آیا
- میں عجب عقدۂ دشوار کو حل کر آیا
- زوالِ شب میں کسی کی صدا نکل آئے
- ا یسا تو نہیں کہ اُن سے ملاقات نہیں ہوئی
- چڑیوں ، پھولوں ، مہتابوں کا
- جب یہ عالم ہو تو لکھیئے لب و رخسار پہ خاک
- بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
- شعلۂ عشق بجھانا بھی نہیں چاہتا ہے
- تیرے تن کے بہت رنگ ہیں جانِ من، اور نہاں دل ک&
- سب داغ ہائے سینہ ہویدا ہمارے ہیں