PDA

View Full Version : عرفان صدیقی



  1. مژگاں اٹھا، اشارۂ پیکاں میں بات کر
  2. سنو کہ بول رہا ہے وہ سر اتارا ہوا
  3. سرابِ دشت تجھے آزمانے والا کون
  4. خشک ہوتا ہی نہیں دیدۂ تر پانی کا
  5. رکا ہوا ہے یہ صحرا میں قافلہ کیسا
  6. شبِ درمیان
  7. وہ خدا ہے کہ صنم ہاتھ لگا کر دیکھیں
  8. اس تکلف سے نہ پوشاکِ بدن گیر میں آ
  9. وہ ان دنوں تو ہمارا تھا لیکن اب کیا ہے
  10. خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو
  11. شکستہ پیرہنوں میں بھی رنگ سا کچھ ہے
  12. جب بھی کی ہم رہیِ بادِ بہاری ہم نے
  13. زوالِ عمر کی افسردگی میں پھول کھلا
  14. بے کراں رات میں تو انجمن آرا ہے کہ ہم
  15. نظر میں رنگ تمھارے خیال ہی کے تو ہیں
  16. اسی دنیا میں مرا کوئے نگاراں بھی تو ہے
  17. کہیں خیام لگیں قریۂ وصال بھی آئے
  18. ہو چکا جو کچھ وہی بار دگر کرنا مجھے
  19. کچھ حرف و سخن پہلے تو اخبار میں آیا
  20. ایک ضد تھی، مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا
  21. اپنے آنگن ہی میں تھا، راہگزر میں کیا تھا
  22. اس نے کیا دیکھا کہ ہر صحرا چمن لگنے لگا
  23. تشنہ رکھا ہے نہ سرشار کیا ہے اُس نے
  24. جہانِ گم شدگاں کے سفر پہ راضی ہوں
  25. بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے
  26. اس سے بچھڑ کے بابِ ہنر بند کر دیا
  27. ملالِ دولتِ بردہ پہ خاک ڈالتے ہیں
  28. چھت پہ مہتاب نکلتا ہوا سرگوشی کا
  29. حلقۂ بے طلباں رنجِ گراں باری کیا
  30. تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیے تھے تمھ&
  31. زندہ رہنا تھا سو جاں نذرِ اجل کر آیا
  32. میں عجب عقدۂ دشوار کو حل کر آیا
  33. زوالِ شب میں کسی کی صدا نکل آئے
  34. ا یسا تو نہیں کہ اُن سے ملاقات نہیں ہوئی
  35. چڑیوں ، پھولوں ، مہتابوں کا
  36. جب یہ عالم ہو تو لکھیئے لب و رخسار پہ خاک
  37. بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
  38. شعلۂ عشق بجھانا بھی نہیں چاہتا ہے
  39. تیرے تن کے بہت رنگ ہیں جانِ من، اور نہاں دل ک&
  40. سب داغ ہائے سینہ ہویدا ہمارے ہیں