- تعارف۔۔۔۔۔۔۔
- ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- کام کی بات میں نے کی ہی نہیں
- سب چلے جاؤ مجھ میں تاب نہیں
- اب کسی سے میرا حساب نہیں
- عجب اک طور جو ہم ایجاد رکھیں
- زخمِ امید بھر گیا کب کا
- تیری قیمت گھٹائی جا رہی ہے
- ذکر بھی اس سے کیا خلاء میرا
- وہ جو کیا کچھ نہ کرنے والے تھے
- تمھارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو
- تشنہ کامی کی سزا دو تو مزا آ جائے
- نئی خواہش رچائی جا رہی ہے
- میں اور خود سے تجھ کو چھپاؤں گا ، یعنی میں
- ایک گماں کا حال ہے اور فقط گماں میں ہے
- اے کوئے یار تیرے زمانے گزر گئے
- اب کسی سے مرا حساب نہیں
- فرقت میں وصلت برپا ہے۔۔اللہ ہُو کے باڑے می
- کیا یقین اور کیا گماں چُپ رہ
- کب اس کا وصال چاہیے تھا
- کب اس کا وصال چاہیے تھا
- اُس نے ہم کو گناہ میں رکھا
- اپنی منزل کا راستہ بھیجو
- خود سے رشتے رہے کہاں اُن کے
- زخمِ اُمید بھر گیا کب کا
- مجھ کو تو گِر کے مرنا ہے
- تشنگی نے سراب ہی لکھا
- تم سے بھی اب تو جا چُکا ہوں میں
- گزراں ہے گزرتے رہتے ہیں
- شام تھی اور برگ و گُل شَل تھے مگر صبا بھی تھی
- عذابِ ہجر بڑھا لوں اگر اجازت ہو
- جُز گماں اور تھا ہی کیا میرا
- ذکر بھی اس سے کیا بَھلا میرا
- حواس میں تو نہ تھے پھر بھی کیا نہ کر آئے
- کوئے جاناں میں اور کیا مانگو
- سرِ صحرا حباب بیچے ہیں
- کیا یہ آفت نہیں عذاب نہیں
- جب ہم کہیں نہ ہوں گے تب شہر بھر میں ہوں گے
- سر پر اک سچ مچ کی تلوار آئے تو
- ٹھہروں نہ گلی میں تری وحشت نے کہا تھا
- یاد اُسے انتہائی کرتے ہیں
- میں نہ ٹھہروں نہ جان تُو ٹھہرے
- خون تھوکے گی زندگی کب تک
- وہ صبا اس کے بِن جو آئی تھی
- دل سے ہے بہت گریز پا تو
- وہ خیالِ مُحال کِس کا تھا
- حال خوش تذکرہ نگاروں کا
- شہر بہ شہر کر سفر زادِ سفر لیے بغیر
- گِلے سے باز آیا جا رہا ہے
- گماں کی اک پریشاں منظری ہے
- نہ رہا دل نہ داستاں دل کی
- کون سے شوق کِس ہوس کا نہیں
- کوئی گماں بھی نہیں درمیاں گماں ہے یہی
- بخشش ہوا یقین۔۔گماں بے لباس ہے
- رہن سرشاریِ فضا کے ہیں
- دل کی تکلیف کم نہیں کرتے
- یہاں تو کوئی مَن چلا ہی نہیں
- شام تک میری بے کلی ہے شراب
- دل کتنا آباد ہوا جب دید کے گھر برباد ہوئے
- جبر پُر اختیار ہے ، اماں ہاں
- ایک ہی بار بار ہے ، اماں ہاں
- بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں
- خود مست ہوں خود سے آ ملا ہوں
- دل سے اب رسم و راہ کی جائے
- آ کہ جہانِ بے خبراں میں بے خبرانہ رقص کریں
- اک دل ہے جو جو ہر لمحہ جلانے کے لیے ہے
- دل گماں تھا گمانیاں تھے ہم
- عجب حالت ہماری ہو گئی ہے
- نہیں نباہی خوشی سے غمی کو چھوڑ دیا
- چلو بادِ بہاری جا رہی ہے
- تری مرہم نگاہی اے مسیحا
- عیشِ اُمید ہی سے خطرہ ہے
- کب پتا یار کو ہم اپنے لکھا کرتے ہیں
- ہر دھڑکن ہیجانی تھی ہر خاموشی طوفانی تھی
- ہیں موسم رنگ کے کتنے گنوائے، میں نہیں گِنت
- غم ہے بے ماجرا کئی دن سے
- خود میں ہی گزر کے تھک گیا ہوں
- ہے عجب حال یہ زمانے کا
- تجھ بدن پر ہم نے جانیں واریاں
- ہیں سبھی سے جن کی گہری یاریاں
- تم سے جانم عاشقی کی جائے گی
- کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو
- کہ رُوٹھے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو
- گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے
- دل جو اک جائے تھی دنیا ہوئی آباد اس میں
- خواب کے رنگ دل و جاں میں سجائے بھی گئے
- کر لیا خود کو جو تنہا میں نے
- دل میں ہے میرے کئی چہروں کی یاد
- وہ اہلِ حال جو خود رفتگی میں آئے تھے
- میں دل کی شراب پی رہا ہوں
- جب تری خواہش کے بادل چھٹ گئے
- آدمی وقت پر گیا ہوگا
- بے انتہائی شیوہ ہمارا سدا سے ہے
- دل جو ہے آگ لگا دوں اس کو
- مجھ کو شبِ وجود میں تابشِ خواب چاہیے
- دلیلوں سے اسے قائل کیا تھا
- جہل واعظ کا اُس کو راس آئے
- جانِ جاں تجھ کو اب تری خاطر
- کہاں جا کے دنیا کو ڈالوں بَھلا
- ہم کو ہر گز نہیں خدا منظور
- مُجھ کو خود سے جُدا نہ ہونے دو
- تم اُن میں سے ہو جو یاں فتح مند ٹھہرے ہیں
- تو کیا اب نیند بھی آنے لگی ہے
- یاد آنا کوئی ضروری تھا
- راس آ نہیں سکا کوئی بھی پیمان الوداع
- آپ اپنا غبار تھے ہم تو
- ہونے کا دھوکا ہی تھا
- کسی حال میں نہیں ہوں کوئی حال اب نہیں ہے
- عجب تھا اس کی دلداری کا انداز
- بات ہی کب کسی کی مانی ہے
- نشۂ ناز نے بے حال کیا ہے تم کو
- فارہہ
- بے ساز و ساماں
- تم مجھے بتاؤ تو۔۔۔۔
- انگارے
- زہرِ ناب کا دن
- تمثیل
- تمہارے اور میرے درمیاں
- تم مری آخری محبت ہو
- ہم بصد ناز دل و جاں میں بسائے بھی گئے
- تا کجا
- تمہارا فیصلہ جاناں
- شہر میں اگ لگانے کے لئے نکلے ہیں
- نیا اک ربط پیدا کیوں کریں ہم
- سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی
- ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں
- میری عقل و ہوش کی سب حالتیں
- میں تو نڈھال ہو گیا ، ہم تو نڈھال ہو گئے
- عشق پیچاں کی صندل پر جانے کس دن بیل چڑھے
- معمول
- اس رائیگانی میں
- دریچہ ہائے خیال
- اِک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
- ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے
- ہے فصیلیں اٹھا رہا مجھ میں
- کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو
- بزم سے جب نگار اٹھتا ہے
- حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی
- اے صبح! میں اب کہاں رہا ہوں
- عمر گزرے گی امتحان میں کیا
- راتیں سچی ہیں، دن جھوٹے ہیں
- کیا ہو گئیں اپنی وعدہ گاہیں
- جو رعنائی نگاہوں کے لئے فردوسِ جلوہ ہے
- لہو روتے نہ اگر ہم دمِ رخصت یاراں
- گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا
- دل نے وفا کے نام پر کارِ وفا نہیں کیا
- ہم رہے پر نہیں رہے آباد
- دل کو اک بات کہہ سنانی ہے
- بے یک نگاہ بے شوق بھی، اندازہ ہے، سو ہے
- مر چکا ہے دل مگر زندہ ہوں میں
- بیمار پڑوں تو پوچھیو مت
- رنگ بادِ صبا میں بھرتا ہے
- ایک سایہ میرا مسیحا تھا
- بے قراری سی بے قراری ہے
- خود سے ہم اک نفس ہلے بھی کہاں
- ہے ضرورت بہت توجّہ کی
- دھُند چھائی ہوئی ہے جھیلوں پر
- تم میرا دکھ بانٹ رہی ہو اور میں دل میں شرمند
- ہر خراشِ نفس ، لکھے جاؤں
- مجھ کو خود پر بڑا بھروسہ تھا
- بے فصل اشاروں سے ہوا خونِ جنوں کا
- خلوتِ ناز اور آئینہ
- تھی یک نگاہِ شوق مری تازگی رُبا
- مر گئے جون ! مر گئے مرے دن
- ہو اک خیال جو دیوانہ وار دل میں رہے
- اجنبی شہر ، اجنبی بازار
- ہم میں کچھ دلدار تھے ، ہم کون تھے ، ہم کون تھے
- کتنے عیش اڑاتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے
- اس سے ملنے کی آرزو کی ہے
- جب تری جان ہو گئی ہو گی
- تیرے بدن کی جدائی بہت ستاتی ہے
- اک قدم بھی نہیں بڑھوں گا میں
- روح پیاسی کہاں سے آتی ہے
- وہ نہیں تھا میری طبیعت کا
- نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چُھپا
- دل کا دیارِ خواب میں ، دور تلک گُزر رہا
- وقت درماں پذیر تھا ہی نہیں
- میرا میری ذات میں سودا ہوا
- ان کے سانچہ میں نہ ڈھلو
- دور نظروں سے خلوتِ دل میں
- تم زمانے سے لڑ نہیں سکتیں
- چڑھ گیا سانس جھک گئیں نظریں
- آپ کی تلخ نوائی کی ضرورت ہی نہیں
- آگ کی طرح اپنی انچ میں گم
- دُکھ ہیں اور میں ہوں
- کیا عجب تھا کہ کوئی اور تماشہ کرتے
- ہر چیز بدل گئی یہاں تو
- بَھلا میں پوچھتا اس سے تو کیسے
- اور پھر بند ہی یہ باب کیا
- Jon Elia