- تعارف۔۔۔۔
- جگر مراد آبادی
- نیاز و ناز کے جھگڑے مٹائے جاتے ہیں
- نیاز عاشقی کو ہم ناز کے قابل سمجھتے ہیں
- کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
- اب کہاں زمانے میں دوسرا جواب اُن کا
- مقاماتِ اربابِ جاں اور بھی ہیں
- درد بڑھ کر فغاں نہ ہو جائے
- کسی صورت نمودِ سوز پہچانی نہیں جاتی
- طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
- دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
- ہمیں معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میںکیا ہو گا
- یہ مصرع کاش نقشِ ہر در و دیوار ہو جائے
- وہ حسنِ کافر اللہ اکبر
- زندگی ہے مگر پرائی ہے
- پرائے ہاتھوں میں جینے کی ہوس کیا؟
- وہ کافر آشنا ، نا آشنا یوں بھی ہے اور یوں بھی
- جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
- نہ راہزن، نہ کسی رہنما نے لوٹ لیا
- نہ تاب مستی، نہ ہوش ہستی، کہ شکر نعمت ادا کر
- پیوست دل میں جب ترا تیرِ نظر ہوا
- کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا
- تیرا تصور شب ہمہ شب
- مجھے ہلاک فریب مجاز رہنے دے
- ہزاروں قربتوں پر یوں مرا مہجور ہو جانا
- تری خوشی سے اگر غم میں بھی خوشی نہ ہوئی
- ستم کوشیاں ہیں، ستم کاریاں ہیں
- آدمی آدمی سے ملتا ہے
- اوس پڑے بہار پر، آگ لگے کنار میں
- جھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہو گا
- تو بھی او نا آشنائے درد دل
- رند جو مجھ کو سمجھتے ہیں، انہیں ہوش نہیں
- شمشیر حسن و عشق کا بسمل بنا دیا
- محبت کی محبت تک ہی جو دنیا سمجھتے ہیں
- مدت میں وہ پھر تازہ ملاقات کا عالم
- نوید بخشش عصیاں سے شرمسار نہ کر
- نہ راہ زن، نہ کسی رہنما نے لوٹ لیا
- کس نظر سے آج وہ دیکھا کیا
- ایک رنگیں نقاب نے مارا
- کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
- ملا کے آنکھ نہ محرومِ ناز رہنے دے
- وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی ، نظر میں اب تک سم
- سن تو اے دل یہ برہمی کیا ہے؟
- زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھائے نہ بنے
- اگر شامل نہ درپردہ کسی کی آرزُو ہوتی
- وہ جو روٹھیں یوں منانا چاہیے
- یادش بخیر! جب وہ تصور میں آ گیا
- دل بہلنے کی شبِ غم یہی صورت ہو گی
- محبت میں جگر گزرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر
- جب کبھی چھیڑا جنوں نے دیدۂ خوں بار کو
- کسی نے پھر نہ سنا درد کے فسانے کو
- یہ مزا تھا، خلد میں بھی نہ مجھے قرار ہوتا
- دل میں کِسی کے راہ کیے جا رہا ہوں میں
- م کو مٹا سکے ، یہ زمانے میں دم نہیں
- غم سے چھوٹوں ، تو ادھر دیکھوں میں
- لالہ و گل کو دیکھتے کیا یہ بہار دیکھ کر
- میرا جو حال ہو سو ہو، برقِ نظر گرائے جا
- خود آشیاں کو آگ لگا دی بہار میں
- خود ہوئی گم ، ہمیں بھی کھو بیٹھی
- اس قدر رحم مرے حال پہ فرمائیں آپ
- دامن پہ نظر کی تو گریباں نہیں دیکھا
- مرا دل سراپا قلق ہو گیا
- جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتح زمانہ
- نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے
- اشکوں کی آرزوئیں آنکھوں کی التجائیں
- میں دُور ہوں تو روئے سخن مجھ سے کس لئے
- ہم سے پوچھ اے ناصح دل گرفتگی اُن کی
- خوشا درسِ غیرت ، زہے عشقِ تنہا