- Parveen Shakir
- Wo Rangon main dhalii larkii وہ رنگوں میں ڈھلی لڑکی ۔۔۔
- Hathaliyun ki dua phool le ke aaii ho (Parveen Shakir)
- Ham se jo kuch kehana hai wo baad main keh(Parveen Shakir).
- Baad muddat ussay dekha logo……………..
- قریۂ جاں میں کوئی پھُول کھِلانے آئے
- آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو
- چہرہ میرا تھا، نگاہیں اُس کی
- ہتھیلیوں کی دُعا پھول لے کے آئی ہو
- ہم سے جو کُچھ کہنا ہے وہ بعد میں کہہ
- بعد مُدت اُسے دیکھا، لوگو
- سکوں بھی خواب ہُوا، نیند بھی ہے کم کم پھر
- اپنی رسوائی، ترے نام کا چرچا دیکھوں
- پھر مرے شہر سے گزرا ہے وہ بادل کی طرح
- وہ جب سے شہر خرابات کو روانہ ہُوا
- وہ جب سے شہر خرابات کو روانہ ہُوا
- تمام رات میرے گھر کا ایک در کھُلا رہا
- وہ عکسِ موجۂ گل تھا، چمن چمن میں رہا
- دروازہ جو کھولا تو نظر آئے وہ کھڑے وہ
- یہ غنیمت ہے کہ اُن آنکھوں نے پہچانا ہمیں
- چراغِ راہ بُجھا کیا ، کہ رہنما بھی گیا
- لمحات وصل کیسے حجابوں میں کٹ گئے
- نیند تو خواب ہو گئی شاید
- چاند اُس دیس میں نکلا کہ نہیں!
- کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
- سبز موسم کی خبر لے کے ہَوا آئی ہو
- دل پہ اِک طرفہ قیامت کرنا
- خیال و خواب ہُوا برگ و بار کا موسم
- گرد چہرے پر قبائے خاک تن پر سج گئی
- عذاب اپنے بکھیروں کہ مُرتسم کر لوں
- سوچوں تو وہ ساتھ چل رہا ہے
- جسے بہار کے مہمان خالی چھوڑ گئے
- آنگنوں میں اُترا ہے بام و در کا سناٹا
- آنکھوں سے میری، کون مرے خواب لے گیا
- شدید دُکھ تھا اگرچہ تری جُدائی کا
- جستجو کھوئے ہُوؤں کی عُمر بھر کرتے رہے
- چراغِ ماہ لیے تجھ کو ڈھونڈتی گھر گھر
- نیند تو خواب ہے اور ہجر کی شب خواب کہاں
- گونگے لبوں پہ حرفِ تمنا کیا مجھے
- زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
- سمندروں کے اُدھر سے کوئی صدا آئی
- تیرا گھر اور میرا جنگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
- عکسِ شکستِ خواب بہر سُو بکھیرے
- بجا کہ آنکھوں میں نیندوں کے سلسلے بھی نہیں
- وہ تو خوشبو ہے ، ہواؤں میں بکھر جائے گا
- پانیوں پانیوں جب چاند کا ہالہ اُترا
- پُورا دکھ اور آدھا چاند!
- لہجے کو جُوئے آب کی وہ نے نوائی دے
- دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا
- گئے موسم میں جو کھِلتے تھے گلابوں کی طرح
- کچے زخموں سے بدن سجنے لگے راتوں کے
- کِن لکیروں کی نظر سے ترا رستہ دیکھوں
- نم ہیں پلکیں تری اے موجِ ہَوا، رات کے ساتھ
- موسم کا عذاب چل رہا ہے
- جب ہوا تک یہ کہے ، نیند کو رخصت جانو
- کیسی بے چہرہ رُتیں آئیں وطن میں اب کے
- اب آئے چارہ ساز کہ جب زہر کھِل چُکا
- کھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے
- کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
- رقص میں رات ہے بدن کی طرح
- شام آئی، تری یادوں کے ستارے نکلے
- تمام لوگ اکیلے، کوئے رہبر ہی نہ تھا
- وہ رُت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی
- تجھ سے تو کوئی گلہ نہیں ہے
- اُسی طرح سے ہر اِک زخم خوشنما دیکھے
- یوں حوصلہ دل نے ہارا کب تھا
- دنیا کو تو حالات سے امید بڑی تھی
- عکس خوشبو ہوں ، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
- پھر چاکِ زندگی کو رفوگر ملا کہاں
- چراغ میلے سے باہر رکھا گیا وہ بھی
- کیسے چھوڑیں اسے تنہائی پر
- ہم نے ہی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
- مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
- صیّاد تو امکان سفر کاٹ رہا ہے
- اک گیت ہوا کے ہونٹ پر تھا
- زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
- اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حا
- کچھ دیر کو تجھ سے کٹ گئی تھی
- دن ٹھہر جائے، مگر رات کٹے
- ہم نے ہی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
- شوقِ رقص سے جب تک انگلیاں نہیں کھلتیں
- دسترس سے اپنی، باہر ہو گئے
- خُوشبو بھی اس کی طرزِ پذیرائی پر گئی
- سناّٹا فضا میں بہہ رہا ہے
- دل و نگاہ پہ کس طور کے عذاب اُترے
- ہوا کی دھُن پر بن کی ڈالی ڈالی گائے
- خوشبو ہے وہ تو چھُو کے بدن کو گزر نہ جائے
- رنگ ، خوشبو میں اگر حل ہو جائے
- اپنی ہی صدا سُنوں کہاں تک
- دشمن ہے اور ساتھ رہے جان کی طرح
- چھُونے سے قبل رنگ کے پیکر پگھل گئے
- کیسے چھوڑیں اُسے تنہائی پر
- بارش ہُوئی تو پھُولوں کے تن چاک ہو گئے
- خوشبو کی ترتیب ، ہَوا کے رقص میں ہے
- چہرہ نہ دکھا، صدا سُنا دے
- میری نمو ، میرے ہی جیسے شخص میں ہے
- کیا ڈوبتے ہَوؤں کی صدائیں سمیٹتیں
- سما کے ابر میں ، برسات کی اُمنگ میں ہُوں
- زمیں کے حلقے سے نکلا تو چاند پچھتایا
- رات کے زہر سے رسیلے ہیں
- میں جگنوؤں کی طرح رات بھر کا چاند ہُوئی
- اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے
- اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے
- ۳ دن ٹھہر جائے ، مگر رات کٹے
- کس اسم کے جمال سے بابِ ہُنر کھُلے
- مرجھانے لگی ہیں پھر خراشیں
- ہوا سے جنگ میں ہوں ، بے اماں ہوں
- کہاں آرام لمحہ بھر رہا ہے
- نہ قرضِ ناخنِ گُل ، نام کو لُوں
- عُمر بھر کے لیے اب تو سوئی کی سوئی ہی معصوم ش&
- جانے پھر اگلی صدا کِس کی تھی
- دُکھ نوشتہ ہے تو آندھی کو لکھا! آہستہ
- ڈھونڈا کیے ہاتھ جگنوؤں کے
- منظر ہے وہی ٹھٹک رہی ہوں
- اب کیا ہے جو تیرے پاس آؤں
- اب کیسی پردہ داری ، خبر عام ہو چکی
- من تھکنے لگا ہے تن سمیٹے
- پھُول آئے ، نہ برگِ تر ہی ٹھہرے
- جگا سکے نہ ترے لب ، لکیر ایسی تھی
- میرے چھوٹے سے گھر کو یہ کس کی نظر، اے خُدا! لگ
- وہی پرند کہ کل گوشہ گیر ایسا تھا
- تتلیوں کی بے چینی آ بسی ہے پاؤں میں
- شوقِ رقص سے جب تک اُنگلیاں نہیں کھُلتیں
- مٹّی کی گواہی خوں سے بڑھ کر
- حلقۂ رنگ سے باہر نکلوں
- ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کِس سے بولیے
- یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے، نہ گئے
- گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں ستارہ ہو
- نیم خوابی کا فسوں ٹوٹ رہا ہو جیسے
- دستِ شب پر دکھائی کیا دیں گی
- ذرے سرکش ہُوئے ، کہنے میں ہوائیں بھی نہیں
- کیسے کیسے تھے جزیرے خواب میں
- نظر کی تیزی میں ہلکی ہنسی کی آمیزش
- وہ جس سے رہا آج تک آواز کا رشتہ
- چاند میری طرح پگھلتا رہا
- سرِ شاخِ گُل
- اُلجھن
- گمان
- نوید
- ایکسٹیسی
- احتیاط
- پرزم
- گئے جنم کی صدا
- پہلے پہل
- کنگن بیلے کا
- دھیان
- نن
- اُس وقت
- اندیشہ ہائے دُور دراز
- پیش کش
- بس اِتنا یاد ہے
- اِتنا معلوم ہے
- جیون ساتھی سے
- خلش
- آنے والی کل کا دُکھ
- دعا
- شرط
- تشکر
- مری دعا ترے رخشِ صبا خرام کے نام
- اس کے مسیحا کے لیے ایک نظم
- تِتلی سے مرا پیار کُچھ ایسے بھی بڑھا ہے
- چاند میری طرح پگھلتا رہا
- خوشی کے ساتھ تھی حیرانگی کی آمیزش
- ڈوبتے سُورج کی نارنجی لیکن
- سانپ سے دوستی ، جنگل میں نہ بھٹکائے کہیں
- چاند سے رابطہ مگر ٹوٹ رہا ہو جیسے!
- بارشیں پھر بھی دستکیں دیں گی
- میں چاہے نظم کا ٹکڑا، وہ نثر پارہ ہوا
- روشنی آنکھ نے پی اور سرِ مژگانِ خیال
- پھر طشتری میں رنگ پُرانے نہ گھولیے
- زرد برگد کے اکیلے پن میں
- ہر عشق گواہ ڈھونڈتا ہے
- چھپ پہ کون آتا ہے ، سیڑھیاں نہیں کھُلتیں
- اب تو ہجر کے دُکھ میں ساری عُمر جلنا ہے
- پہلے کیا پناہیں تھیں مہرباں چتاؤں میں
- اُداسیوں سے ہی نبھتی ، خمیر ایسا تھا
- درد بھی جب تھما ، آنکھ بھی جب ذرا لگ گئی
- زباں غیر میں لِکھا ہے تُو نے خط مُجھ کو
- دوست چڑیوں کے لیے کچھ حرف
- رّدِ عمل
- ریت سے اپنے گھر نہ بنا
- پکنک
- وہ آنکھیں کیسی آنکھیں ہیں ؟
- ایک نظم
- ڈیوٹی
- وہی نرم لہجہ
- فاصلے
- چاند رات
- چاند
- توقع
- مقدر
- تیری ہم رقص کے نام
- صرف ایک لڑکی
- امَر
- موسم کی دُعا
- ویسٹ لینڈ (ایسٹ کی مشہور نظمWaste Landسے متاثر ہو کر
- رفاقت
- لڑکیاں اُداس ہیں
- پہرے
- فلاور شو
- بنفشے کا پھُول
- زمیں پہ جب کسی نئے وجُود نے جنم لیا
- شہرِ چارہ گراں
- ننھے دوست کے نام ایک نظم
- اوتھیلو
- پسِ جاں
- دل کی ہنسی
- ساحل سے ٹکرا کے جب واپس لوٹی تو
- خواب
- دوست
- احساس
- آنچل اور بادبان
- سمندر کی بیٹی
- مفاہمت
- تُمھارا رویہ
- آئینہ
- وحی
- اپنی زمین کے لیے ایک نظم
- دھُوپ کا موسم
- عیادت
- رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے
- سالگرہ
- لیلۃ الصّک
- سُکھ کے موسم کا دُکھ
- تنقید اور تخلیق
- مسئلہ
- ایک دوست کے نام
- ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں
- جنم
- مشترکہ دُشمن کی بیٹی
- بارش میں
- نارسائی
- نیا دُکھ
- آج کی رات
- نئی رات
- واٹر لُو
- مجبوری
- تعبیر
- اِتنا دھیان رکھنا
- موسم
- مورنی
- لیکن
- کرنوں کے قدم
- بائیسویں صلیب
- جل پری
- بے نسب ورثے کا بوجھ
- کن رس
- خُود سے مِلنے کی فُرصت کسے تھی
- ساتھ
- گوری کرت سنگھار