- وصل ہو جائے یہیں، حشر میں کیا رکھا ہے
- جو کچھ سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے
- سرِ راہِ عدم گورِ غریباں طرفہ بستی ہے
- دل نے جب پوچھا مجھے کیا چاہئے؟
- وہ تو سنتا ہی نہیں میں داد خواہی کیا کروں؟
- منہ پھر نہ کر وطن کی طرف یوں وطن کو چھوڑ
- چھوٹے جو بوئے گل کی طرح سے چمن کو چھوڑ
- ایک دلِ ہمدم، مرے پہلو سے، کیا جاتا رہا
- تیغِ قاتل پہ ادا لوٹ گئی
- فنا کیسی بقا کیسی جب اُس کے آشنا ٹھہرے
- عجب عالم ہے اُس کا، وضع سادی، شکل بھولی ہے
- کون بیماری میں آتا ہے عیادت کرنے؟
- خنجرِ قاتل نہ کر اتنا روانی پر گھمنڈ
- کیا قصد جب کچھ کہوں اُن کو جل کر
- جب خوبرو چھپاتے ہیں عارض نقاب میں
- خیالِ لب میں ابرِ دیدہ ہائے تر برستے ہیں
- قاضی بھی اب تو آئے ہیں بزمِ شراب میں
- شمشیر ہے سناں ہے کسے دوں کسے نہ دوں
- کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا
- جادۂ راہِ عدم ہے رہِ کاشانۂ عشق
- وا کردہ چشم دل صفتِ نقش پا ہوں میں
- لٹکاؤ نہ گیسوئے رسا کو
- ہم لوٹتے ہیں، وہ سو رہے ہیں
- اِن شوخ حسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا
- یوں دل مرا ہے اُس صنمِ دلرُبا کے پاس
- میرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا
- پرسش کو مری کون مرے گھر نہیں آتا
- ان شوخ حسینوں پہ بھی مائل نہیں ہوتا
- دامنوں کا نہ پتہ ہے نہ گریبانوں کا
- یہ تو میں کیونکر کہوں تیرے خریداروں میں ہو
- اس کی حسرت ہے ، جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
- ایک دل ہم دم مرے پہلو سے کیا جاتا رہا
- ایک ہے میرے حضر اور سفر کی صورت
- دل جُدا، مال جدا، جان جدا لیتے ہیں
- چاند سا چہرہ، نور سی چتون، ماشاء اللہ! ماشا
- تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے
- جب یار ہوا جفا کے قابل
- تیرے جور و ستم اُٹھائیں ہم
- وہ کون تھا جو خرابات میں خراب نہ تھا
- دل جو سینے میں زار سا ہے کچھ
- اے ضبط دیکھ عشق کی اُن کو خبر نہ ہو
- مر چلے ہم مر کے اُس پر مر چلے
- اُٹھو گلے سے لگا لو، مٹے گلہ دل کا
- لیا میں نے تو بوسہ خنجرِ قاتل کا مقتل میں
- وہ کہتے ہیں، نکلنا اب تو دروازے پہ مشکل ہے
- ملا کر خاک میں بھی ہائے شرم اُنکی نہیں جاتی
- جب تلک ہست تھے، دشوار تھا پانا تیرا
- رو برو آئینے کے، تو جو مری جاں ہوگا
- سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ
- محتسب پوچھ نہ تو شیشے میں کیا رکھا ہے
- اے جوانی، یہ ترے دم کے ہیں، سارے جھگڑے
- Ameer Minai